جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

کیا اللہ تعالی مشرک کو بخش دیتا ہے؟اور مشرک اپنے ایمان کو کیسے مضبوط بنا سکتا ہے؟

سوال

میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا اللہ تعالی کسی ایسے شخص کو بخش دے گا جو جان بوجھ کر شرک کا مرتکب ہو چکا ہو لیکن وہ اب توبہ کر کے اپنی زندگی کو مکمل طور پر تبدیل کرنا چاہتا ہو؟ اس شخص کی مغفرت کیسے ہو گی؟ اور یہ کیسے معلوم ہوگا کہ اللہ تعالی نے اسے معاف کر دیا ہے؟ وہ اپنے ایمان کو اتنا مضبوط کیسے بنا سکتا ہے کہ حلال کام کرنے لگے اور حرام کاموں سے بچے؟ مجھے بہت سے نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے یہ مسائل مجھے گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں اور مجھے تشویش میں مبتلا کر دیتے ہیں، مجھے آپ کے مشورے اور اللہ کی ہدایت کی ضرورت ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالی نے یہ بات بتلا دی ہے کہ جو شخص بھی توبہ کر کے اللہ کی جانب رجوع کرے تو اللہ تعالی اسے بخش دیتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعاً إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ )
ترجمہ: کہہ دو: اپنی جانوں پر زیادتی کرنے والے میرے بندو! اللہ کی رحمت سے نا امید مت ہو، بیشک اللہ تعالی تمام گناہ معاف کر دیتا ہے،  بیشک وہ نہایت بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔[ الزمر:53] اس آیت کریمہ میں شرک سمیت بلا استثنا تمام گناہ شامل ہیں ، لہذا جو شخص بھی اللہ تعالی سے توبہ مانگے تو اللہ تعالی اسے معاف کر دیتا ہے۔

بلکہ کچھ نصوص خصوصی طور پر شرک سے توبہ کے متعلق بھی آئی ہیں کہ شرک سے کی ہوئی توبہ بھی قبول ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهاً آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَاماً * يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَاناً *إِلا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحِيماً )
ترجمہ: اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالی نے منع کر دیا ہو وہ بجز حق کے قتل نہیں کرتے  نہ وہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں  اور جو کوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائے گا[68] قیامت کے دن اس کا عذاب دگنا  کر دیا جائے گا اور ذلیل ہو کر اس میں ہمیشہ کے لئے پڑا رہے گا[69] ہاں جو شخص توبہ کر لے اور ایمان  لے آئے اور نیک عمل کرے تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ تعالی نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔   [الفرقان:68- 70]

اسی طرح اللہ تعالی نے عیسائیوں کے شرک   و کفر کا ذکر کر کے انہیں توبہ کرنے کی دعوت دی اور فرمایا:

( لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلاثَةٍ وَمَا مِنْ إِلَهٍ إِلا إِلَهٌ وَاحِدٌ وَإِنْ لَمْ يَنْتَهُوا عَمَّا يَقُولُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ* أَفَلا يَتُوبُونَ إِلَى اللَّهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ )
ترجمہ: وہ لوگ بھی قطعاً کافر ہوگئے جنہوں نے کہا، اللہ تین میں سے تیسرا ہے  دراصل اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے اس قول سے باز نہ رہے تو ان میں سے جو کفر پر رہیں گے، انہیں المناک عذاب ضرور پہنچے گا۔ [73] یہ لوگ کیوں اللہ تعالی کی طرف نہیں جھکتے اور کیوں استغفار نہیں کرتے ؟ اللہ تعالی تو بہت ہی بخشنے والا اور بڑا ہی مہربان ہے۔ [ المائدة:73، 74]

لہذا گناہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اللہ تعالی کی رحمت، معافی اور اس کا کرم ہر چیز سے بڑا ہے۔

چنانچہ آپ کی صرف یہی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ فوری طور پر اللہ تعالی کی جانب رجوع کریں، ماضی میں آپ سے جو کچھ بھی ہوا ہے اس پر اظہار ندامت کریں اور آئندہ ایسا گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم کریں، پھر اس کے بعد اللہ کے فضل، کرم اور رحمت سمیت کامیابیوں سے ہمکناری کی امید کریں ؛ کیونکہ اسلام قبول کرنے سے  سابقہ تمام گناہ مٹ جاتے ہیں، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا: (عمرو! تمہیں یہ معلوم نہیں کہ اسلام گزشتہ تمام گناہوں کا خاتمہ کر دیتا ہے) مسلم: (121)احمد: (17861)

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہی ہے جیسے کہ اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں) ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔

لہذا اگر کوئی شخص اللہ تعالی کی جانب رجوع کرے تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے، اور اسے بخش بھی دیتا ہے، اس کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ )
ترجمہ: اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور گناہوں کو معاف کرتا ہے۔[الشورى:25 ]

ایسے ہی ایک جگہ فرمایا:
( وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً ثُمَّ اهْتَدَى )
ترجمہ: اور بیشک  میں بہت زیادہ بخشنے والا ہوں اس شخص کو جو توبہ کرے، ایمان لے آئے اور نیک عمل کرنے لگے اور پھر راہِ راست پر رہے۔[طہ:82]

اس لیے انسان کو اپنے پروردگار کے بارے میں حسن ظن ہی رکھنا چاہیے اور اپنے توبہ کی قبولیت کے بارے میں پختہ امید رکھے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا حدیث قدسی میں فرمان ہے: (میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے میرے بارے میں گمان کے مطابق ہی معاملہ کرتا ہوں) بخاری: (7066) مسلم: (2275) اور مسند احمد: (16059) میں صحیح سند کے ساتھ یہ بھی ہے کہ: (میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے میرے بارے میں گمان کے مطابق ہی معاملہ کرتا ہوں، اب اس کی مرضی ہے میرے بارے میں جیسا مرضی گمان کرے)

اور انسان کے ایمان میں پختگی  کئی امور  سے ممکن ہے جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

1- کثرت کے ساتھ اللہ تعالی کا ذکر کرے اور قرآن مجید کی تلاوت کرے، نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے دورد بھیجے۔

2- فرائض کی پابندی کرے اور کثرت کے ساتھ نفل عبادات کا اہتمام کرے، تا کہ انسان اللہ کی محبت پا لے اور تاکہ اللہ تعالی اسے توفیق دے کر کامیاب کر دے، جیسے کہ حدیث قدسی میں ہے کہ: (جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی رکھی میں اسکے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں، اور میرے قریب ترین ہونے کیلئے سب سے پسندیدہ عمل فرض عبادات کو بجا لانا ہے، میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے حتی کہ میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں، چنانچہ جب محبت کرنے لگوں تو اِسکا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اسکی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے دیکھتا ہے، اور اسکا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے پکڑتا ہے، اور اسکا پاؤں بن جاتا ہوں جس کے ذریعے چلتا ہے، پھر مجھ سے کچھ مانگے تو میں اسے یقیناً ضرور دونگا، اور اگر مجھ سے پناہ مانگے تو میں لازمی اسے پناہ دونگا) بخاری: (6137)

3- اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کریں  جو آپ کی نیکی کے کاموں میں مدد کریں اور برائی سے آپ کے دل میں نفرت پیدا کریں۔

4- علمائے کرام، زاہدین اور عبادات گزاروں جیسے نیک لوگوں  کی سوانح عمری کا مطالعہ کریں۔

5- کسی بھی ایسی چیز سے دور ہو جائیں جو گناہ کی طرف مائل کرے ۔

مجموعی طور پر نیکی کرنے اور گناہ چھوڑنے سے ایمان مضبوط ہوتا ہے ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ آپ کو کامیاب فرمائے، آپ کی توبہ قبول فرمائے اور  آپ کے دل کو راہِ راست نصیب فرمائے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب