جمعرات 25 جمادی ثانیہ 1446 - 26 دسمبر 2024
اردو

کیا "تام الخلقت مولود" یا "ناقص الخلقت مولود" کہنا جائز ہے؟

344142

تاریخ اشاعت : 25-05-2023

مشاہدات : 1087

سوال

جب کوئی کسی کو اولاد کی دعا دے اور کہے: اللہ تعالی سے دعا ہے کہ آپ کو تام الخلقت بیٹا عطا فرمائے۔ یا کسی سے بیٹا یا بیٹی کے متعلق پوچھا جائے کہ آپ کیا چاہتے ہیں تو وہ جواب میں کہتا ہے کہ: بیٹا ہو یا بیٹی کچھ بھی ہو بس تام الخلقت ہو، پھر پوچھنے والا دعا دیتا ہے کہ: اللہ تعالی ہمیں تخلیقی عیوب سے پاک اولاد عطا فرمائے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا تخلیقی عیوب سے پاک اولاد کا مطالبہ کرنا صحیح ہے؟ کیونکہ اس میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید اللہ تعالی تخلیق کامل انداز سے نہیں فرماتا، حالانکہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں واضح فرمایا ہے کہ: ہم نے انسان کو کامل ترین ساخت میں پیدا کیا ہے۔

جواب کا خلاصہ

اللہ تعالی انسان کو خوبصورت ترین شکل میں پیدا فرماتا ہے۔ انسانیت کی تخلیق کے لیے یہی اصول کار فرما ہے، تاہم سب کے سب انسان حسن و تخلیق میں یکساں نہیں ہوتے، چنانچہ کچھ لوگوں کے لیے اللہ تعالی اپنی کامل حکمت کے تحت ناقص الخلقت پیدا ہونا مقدر فرما دیتا ہے۔ چنانچہ لوگوں کا کسی عیب کو پیدائشی عیب کہنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ اللہ تعالی کے بارے میں سوئے ظن کا شکار ہیں، نہ ہی وہ اللہ تعالی کی تخلیق پر کسی قسم کا اعتراض کر رہے ہوتے ہیں، لوگوں کا مطلب صرف اتنا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے کسی بھی بندے کے مقدر میں پیدائشی عیب کا رکھ دیا جانا عام طور پر لوگوں کے ہاں معیوب ہوتا ہے۔

الحمد للہ.

اول:

اللہ تعالی نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا ہے۔

فرمانِ باری تعالی ہے:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ
 ترجمہ: یقیناً ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا ہے۔[التین: 4]

علامہ طبری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"اس حوالے سے درست ترین قول یہ ہے کہ: اس کا مطلب یہ ہے کہ: ہم نے انسان کو بہترین اور معتدل شکل و صورت میں پیدا کیا ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی { أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ } صفت ہے حذف شدہ موصوف کی تو تقدیری عبارت ہو گی " لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي تَقْوِيمٍ أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ"یعنی مطلب یہ ہوا کہ ہم نے انسان کو ایسی شکل و صورت میں پیدا کیا ہے جو سب سے بہترین شکل و صورت ہے۔" ختم شد
"تفسیر طبری" (24 / 513)

اسی طرح علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ
 ترجمہ: یقیناً ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا ہے۔[التین: 4]

یعنی: اللہ تعالی نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا، اسے عمودی شکل کا قد کاٹھ دیا، اور تمام اعضا مکمل اور خوبصورت بنائے ہیں۔" ختم شد
"تفسیر ابن کثیر" (8 / 435)

حکمت الہی کی وجہ سے بسا اوقات بچہ پیدائشی طور پر تام الخلقت نہیں ہوتا

انسانیت کی تخلیق کے لیے مذکورہ بالا اصول ہی کار فرما ہوتا ہے، تاہم سب کے سب انسان حسن و تخلیق میں یکساں نہیں ہوتے، چنانچہ کچھ لوگوں کے لیے اللہ تعالی اپنی کامل حکمت کے تحت ناقص الخلقت پیدا ہونا مقدر فرما دیتا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا
 ترجمہ: یقیناً انسان کو ہم نے ملے جلے نطفے سے آزمانے کے لیے پیدا کیا ہے، اور اسی لیے اسے سننے والا اور دیکھنے والا بنایا ہے۔[الانسان: 2]

لیکن ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ کچھ لوگ بہرے یا نابینا پیدا ہوتے ہیں۔

چنانچہ اگر مسلمان اللہ تعالی سے یہ دعا کرے کہ اس کی ہونے والی اولاد کو تخلیقی نقص سے محفوظ فرمائے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ اللہ تعالی کے بارے میں بد ظنی کا شکار ہے؛ کیونکہ مسلمان کو اللہ تعالی کی قدرت طاقت اور بادشاہت پر مکمل یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالی جو چاہے اور جو پسند کرے وہی پیدا فرماتا ہے۔

جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ
 ترجمہ: اور تیرا رب جو چاہے پیدا فرماتا ہے اور جسے چاہے پسندیدہ بناتا ہے۔ لوگوں کے لیے یہ اختیارات نہیں ہیں۔ اللہ تعالی ہر عیب سے پاک ہے، اور لوگوں کے شرکا سے بلند و بالا ہے۔[القصص: 68]

اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے "الأدب المفرد" (1256) میں کثیر بن عبید سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں: جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رشتہ داروں کے ہاں زچگی ہوتی تو یہ نہیں پوچھتی تھیں کہ لڑکا ہے یا لڑکی؟ بلکہ یہ پوچھتی کہ: مولود تام الخلقت ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہوتا تو فرماتیں: اللہ کا شکر ہے جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔
اس اثر کو شیخ البانی نے صحیح ادب المفرد : (485) میں حسن قرار دیا ہے۔

کسی نقص کے بارے میں "پیدائشی عیب" کہنے کا حکم:

لوگوں کا کسی عیب کو پیدائشی عیب کہنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ اللہ تعالی کے بارے میں سوئے ظن کا شکار ہیں، نہ ہی وہ اللہ تعالی کی تخلیق پر کسی قسم کا اعتراض کر رہے ہوتے ہیں، لوگوں کا مطلب صرف اتنا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے کسی بھی بندے کے مقدر میں پیدائشی عیب کا رکھ دیا جانا عام طور پر لوگوں کے ہاں معیوب ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اہل علم ایسے عیب کو بیان کرتے ہیں جو اللہ تعالی کی طرف سے انسان یا کسی جانور میں پیدائشی ہوتا ہے۔ جیسے کہ قربانی کے جانور کے متعلق اور اسی طرح انسان کے ایسے عیوب جن کی وجہ سے نکاح وغیرہ فسخ ہو جاتا ہے۔

شیخ عبد الرحمن البراک حفظہ اللہ سے پوچھا گیا:

"کیا جب کوئی بچہ ناقص الخلقت پیدا ہو تو اسے "پیدائشی عیب دار" کہنا جائز ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا: یہ اللہ تعالی کی تخلیق میں قدغن نہیں ہے، بلکہ یہ حقیقت حال بیان کرنا ہے، خالق باری تعالی جو چاہتا ہے اور جیسے چاہتا ہے تخلیق فرماتا ہے، جیسے کہ قرآن کریم میں ہے: يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ ترجمہ: وہ رحموں میں تمہاری صورتیں جیسے چاہے بناتا ہے۔[آل عمران: 6] اس لیے کوئی خوبصورت ہے یا کوتاہ صورت ہے، کوئی کامل الخلقت ہے یا ناقص الخلقت؛ پیدا کرنے والا وہی ہے، اسی کی طرف اشارہ فرمایا: مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ ترجمہ: پھر گوشت کے لوتھڑے سے جو کبھی مکمل شکل و صورت کا ہوتا ہے اور کبھی ناقص شکل و صورت کا [الحج: 5] اس لیے اس لفظ کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔" ختم شد مختصراً
ماخوذ از: آفیشل ویب سائٹ شیخ براک حفظہ اللہ

اسی طرح شیخ عبد اللہ بن جبرین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:

لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص میں تخلیقی عیب ہے، تو یہ کہنا کیسا ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں جسمانی نقص ہے، جیسے کہ بھینگا پن، لنگڑا پن، یا کسی عضو کا دائمی معطل رہنا، دانت گر جانا، یا انگلی کٹ جانا، یا اضافی دانت اور اضافی انگلی نکل آنا، کُب نکل آنا، گونگا پن وغیرہ۔ یعنی مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اسے ایسے بنا دیا ہے، یا پیدائشی طور پر ایسا ہے۔" ختم شد مختصراً
آفیشل ویب سائٹ شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب