الحمد للہ.
اگر تواس ميں خريدار كو دھوكہ ہو يعني اسطرح كہ خريدار اس نئے مال كو بھي وہي پرانا مال ہي تصور كرے يا پھر اسےٹريڈ مارك اور تجارتي نام حاصل كرركھا ہو تواس صورت ميں دھوكہ اورفراڈ اور دوسرے كے حق پر زيادتي كي بنا پر يہ كام حرام ہوگا.
اسلامي فقہ اكيڈمي نےقرار پاس كي ہےجس ميں اس معنوي حق پر زياتي كوممنوع قرار ديا ہے قرار مندرجہ ذيل ہے:
تجارتي نام، تجارتي پتہ، ٹريڈ مارك، تاليف اورايجاد يا ابتكار يہ سب ايسےحقوق ہيں جوانہيں اختيار كرنےوالوں كےليےخاص ہےاور دور حاضر ميں اسے مالي قيمت حاصل ہے اور لوگوں ميں اس كي ماليت بنانا معروف ہے، اور انہيں شرعا بھي حقوق شمار كيا جائےگا، لھذا اس پر زيادتي كرنا جائز نہيں. اھ
ديكھيں: فقہ اكيڈمي كا مجلۃ عدد نمبر ( 5 ) جزء ( 3 ) صفحہ نمبر ( 2267 ) .
چاہے يہ مسلمان شخص كےحقوق ہوں يا كافر اور غيرمحارب يہ سب برابر ہيں.
اور رہا كافر حربي يعني لڑائي كرنے والا كافر تو باوجود اس كے كہ اس كا مال معصوم نہيں، ليكن ٹريڈ مارك كي نقل اور اس ٹريڈ مارك كي مہر والے مال كي نقل كي ترويج خريدار كےليے دھوكہ ہے، اس طرح كہ يہ خريدار كے ليے يہ ٹريڈ مارك يعني يہ ماركہ مال ميں شرعي طور پر مقصود ہے.
ليكن اگر مال ڈيزائن اور شكل ميں اس سے ملتا جلتا ہو ليكن تجارتي نام مختلف ہو تو اس ميں كوئي حرج نہيں ليكن شرط يہ ہے كہ يہ حرام لباس ميں شامل نہ ہوتا ہو" مثلا وہ لباس جو خاص طور پر كفار كےساتھ مخصوص ہے، يا وہ لباس جو ستر كو نہيں ڈھانپتے، يا تنگ لباس كہ عورت كےجسم كےاعضاء واضح ہوتےہوں" .
واللہ اعلم .