جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

نماز فجر كى چاليس نمازيں تكبير تحريمہ كے ساتھ مداومت كرنے والى حديث كى صحت كيسى ہے ؟

34605

تاریخ اشاعت : 30-07-2008

مشاہدات : 10410

سوال

كيا كوئى ايسى حديث ہے جس ميں ہو كہ جو شخص فجر كى چاليس نمازيں تكبير تحريمہ كے ساتھ ادا كرنے كى مدوامت كرے وہ نفاق اور كفر سے برى ہے، ايك حديث ميں چاليس يوم تك تكبير تحريمہ كے ساتھ نماز كى محافظت كرنے كا بيان ملتا ہے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

بيھقى رحمہ تعالى نے شعب الايمان ميں انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ كى نبى صلى اللہ عليہ وسلم تك مرفوع حديث بيان كى ہے كہ:

" جس نے صبح اور عشاء كى آخرى نماز جماعت كے ساتھ ادا كى اور اس كى كوئى ركعت نہ رہے تو اس كے ليے دو قسم كى برات لكھ دى جاتى ہے، آگ سے برات، اور نفاق سے برات "

ديكھيں: شعب الايمان للبيھقى ( 3 / 62 ).

" العلل المتناھيۃ " ميں ہے كہ:

" يہ حديث صحيح نہيں، بكر بن يعقوب جو يعقوب بن تحيۃ سے بيان كرتے ہيں ان كے علاوہ كسى بھى راوى كا علم نہيں، اور يہ دونوں راوى بھى مجھول الحال ہيں.

ديكھيں: العلل المتناھيۃ ( 1 / 432 ).

ليكن سنن ترمذى ميں يہ الفاظ آئے ہيں:

" جس نے چاليس يوم تك نماز جماعت كے ساتھ ادا كى اور تكبير تحريمہ كے ساتھ ملا تو اس كے ليے دو قسم كى برات لكھى جاتى ہے، آگ سے برات، اور نفاق سے برات "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 241 ) ترمذى رحمہ اللہ تعالى نے اسے ضعيف قرار ديا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے حسن كہا ہے.

اس حديث كو متقدمين علماء كرام كى ايك جماعت نے بھى ضعيف كہا اور اس كى علت بيان كرتے ہوئے اسے مرسل كہا ہے، ليكن بعض متاخرين نے اسے حسن كہا ہے.

ديكھيں: التلخيص الحبير ( 2 / 27 ).

اور پھر حديث صرف نماز فجر پر ہى مقتصر نہيں، بلكہ حديث ميں تو اس كا اجر بيان ہوا ہے كہ جو شخص نماز پنجگانہ كو تكبير تحريمہ كے ساتھ ادا كرنے كى محافظت كرے.

اور اس ميں كوئى شك نہيں كہ اس مدت ميں كے دوران تكبير تحريمہ پا لينا اس شخص كے دين ميں قوى ہونے كى دليل ہے.

جب حديث صحيح ہونے كى محتمل ہے تو اميد ہے كہ جو شخص بھى اس كى حرص ركھے گا اس كے ليے يہ فضل عظيم اور اجر جزيل لكھ ديا جائے گا، اس حرص سے انسان كو كم از كم اس عظيم شعار اسلام كى محافظت كى تربيت حاصل ہو گى.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہمارے ليے نفاق اور آگ سے برات لكھ دے، يقينا اللہ تعالى سننے اور قبول كرنے والا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب