جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

عورت كے ليے اپنے محرم مردوں اور عورتوں كے سامنے كيا كچھ ظاہر كرنا جائز ہے

سوال

آج كل جو عورتيں مردوں كى غير موجودگى ميں عورتوں كے سامنے بہت چھوٹا لباس پہنتى ہيں ان كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے، اور كچھ لباس تو ايسے بھى ہيں جن سے كمر اور پيٹ كا بہت زيادہ حصہ بھى ننگا ہو رہا ہوتا ہے، يا پھر گھر ميں اپنى اولاد كے سامنے يہ چھوٹا لباس ( مثلا شرٹ ) وغيرہ پہننے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس سلسلہ ميں مستقل فتوى اينڈ علمى ريسرچ كميٹى نے ايك فتوى جارى كيا ہے، جو درج ذيل ہے:

رب العالمين و الصلاۃ والسلام على نبينا محمد و على آلہ و صحبہ اجمعين.

اما بعد:

سب تعريفات اللہ رب العالمين كے ليے ہيں، اور ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر درود و سلام اور ان كے صحابہ كرام پر اللہ كى رحمتيں ہوں.

اما بعد:

اسلام كے شروع ميں مومنوں كى عورتيں اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر ايمان كى بركت، اور قرآن و سنت كى پيروى سے عفت و عصمت اور شرم و حياء اور عزت و حشمت اور پاكيزگى كى آخرى حد تك پہنچى ہوئى تھيں.

اور اس دور ميں عورتيں ايسا لباس پہنتى تھيں جو مكمل ساتر اور پردہ كا حامل ہوتا تھا، اور جب عورتيں آپس ميں جمع ہوتيں يا پھر اپنے محرم مردوں كے سامنے ہوتيں تو ان كے متعلق كسى بھى قسم كى بےپردگى معلوم ہى نہيں، اور ـ الحمد للہ ـ اس اچھى اور صحيح سنت پر امت كى عورتوں كا عمل كئى صديوں تك جارى رہا، حتى كہ قريب كے ايام تك.

اور اس كے بعد بہت سارى عورتوں نے اپنے لباس اور اخلاق ميں كئى خرابياں پيدا كر ليں، اس كے كئى ايك اسباب تھے جن كے ذكر كى جگہ يہ نہيں ہے.

علمى ريسرچ اينڈ فتوى كميٹى كو عورت كا عورت كو ديكھنے، اور عورت كے لباس ميں كيا لازم ہے كے متعلق بہت سارے سوالات آئے ہيں، ان سوالات كو مد نظر ركھتے ہوئے كميٹى عموما مسلمان عورت كے ليے يہ بيان كرنا چاہتى ہے كہ:

عورت كو شرم و حياء كے زيور سے مزين ہونا چاہيے، جسے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايمان كا ايك حصہ اور شاخ قرار ديا ہے، اور پھر شرعى اور عرفى طور پر بھى شرم حياء كا حكم ہے، كہ عورت كو باپرد اور عفت و عصمت كے ساتھ رہنے چاہيے، اور اسے ايسا اخلاق اپنانا چاہيے جو اسے فتنہ و خرابياں اور شك كے مقام سے دور ركھے.

قرآن مجيد كا ظاہر اس پر دلالت كرتا ہے كہ عورت كسى دوسرى عورت كے سامنے وہى كچھ ظاہر كر سكتى ہے جو وہ اپنے كسى محرم مرد كے سامنے ظاہر كر سكتى ہے، جس كى عام طور پر گھر ميں كام كاج كرتے ہوئےظاہر كرنے كى عادت بن چكى ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور آپ مومن عورتوں كو كہہ ديجئے كہ وہ بھى اپنى نگاہيں نيچى ركھيں اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، اور اپنى زينت كو ظاہر نہ كريں، سوائے اسكے جو ظاہر ہے، اوراپنے گريبانوں پر اپنى اوڑھنياں ڈالے رہيں، اور اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں، سوائے اپنے خاوندوں كے، يا اپنے والد كے، يا اپنے سسر كے، يا اپنے بيٹوں كے، يا اپنے خاوند كے بيٹوں كے، يا اپنے بھائيوں كے، يا اپنے بھتيجوں كے، يا اپنے بھانجوں كے، يا اپنے ميل جول كى عورتوں كے، يا غلاموں كے، يا ايسے نوكر چاكر مردوں كے جو شہوت والے نہ ہوں، يا ايسے بچوں كے جو عورتوں كے پردے كى باتوں سے مطلع نہيں، اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار كر نہ چليں كہ انكى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائے، اے مسلمانو! تم سب كے سب اللہ كى جانب توبہ كرو، تا كہ تم نجات پا جاؤ النور ( 31 ).

اور جب نص قرآنى يہ ہے تو سنت نبوى بھى اس پر دلالت كرتى ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ و سلم كى ازواج مطہرات، اور صحابہ كرام كى بيويوں كا بھى عمل اسى پر رہا ہے، اور ان كے بعد امت كى عورتوں كا عمل بھى ہمارے اس دور تك يہى رہا ہے، اور آيت ميں مذكورين كے سامنے جو ظاہركرنے كے متعلق آيا ہے يہ وہى اعضاء ہيں جو عادتا عورت گھر ميں كام كاج كے وقت ظاہر كرتى ہے، اور اس كے ليے اس سے اجتناب كرنا مشكل ہوتا ہے، مثلا: سر اور دونوں ہاتھوں، اور گردن، اور دونوں قدم.

ليكن اس كے علاوہ اور عضاء بھى ننگے كرنے ميں وسعت اختيار كرنا ايسى چيز ہے جس كے جواز پر كتاب و سنت سے كوئى دليل نہيں ملتى، اور پھر يہ عورت كے ليے بھى فتنہ اور خرابى كى راہ ہے، اور يہ ان عورتوں كے مابين موجود ہے، اور اس ميں دوسرى عورتوں كے ليے برا نمونہ بھى ہے.

اور اسى طرح اس ميں كافر، اور فاحشہ اور بدكار عورتوں كے لباس كے ساتھ مشابہت بھى ہوتى ہے، اور صحيح حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو كوئى بھى كسى قوم سے مشابہت كرتا ہے تو وہ انہى ميں سے ہے "

اسے امام احمد اور ابو داود نے روايت كيا ہے.

اور صحيح مسلم ميں عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عبد اللہ بن عمرو كو دو زرد كپڑوں ميں ديكھا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمايا:

" بلاشك يہ كپڑے كفار كا لباس ہيں، تم انہيں نہ پہنو "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2077 ).

اور صحيح مسلم ميں ہى ايك اور حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جہنميوں كى دو قسميں ہيں جنہيں ميں نے نہيں ديكھا، ايك وہ قوم جن كے ہاتھوں ميں گائے كى دموں جيسے كوڑے ہونگے وہ اس سے لوگوں كو مارينگے، اور وہ لباس پہننے والى ننگى عورتيں جو خود مائل ہونے والى اور دوسروں كو مائل كرنے والى، ان كے سر بختى اونٹوں كى مائل كوہانوں كى طرح ہونگے، وہ نہ تو جنت ميں داخل ہونگى اور نہ ہى جنت كى خوشبو ہى پائينگى، حالانكہ جنت كى خوشبو اتنى اتنى مسافت سے پائى جاتى ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2128 ).

اور " كاسيات عاريات " كا معنى يہ ہے كہ: عورت ايسا لباس پہنے جو اسے چھپائے ہى نہ تو اس نے لباس تو پہن ركھا ہے، ليكن حقيقت ميں وہ ننگى ہے مثلا: جس عورت نے اتنا باريك لباس پہن ركھا ہو جو نيچے سے اس كى جلد كى رنگت بھى واضح كر رہا ہو، يا پھر وہ لباس جو عورت كے جسم كے اعضاء اور جوڑ اور انگ انگ كو واضح كر رہا ہو، يا پھر وہ چھوٹا لباس جس سے جسم كے بعض اعضاء ننگے ہو رہے ہوں.

اس ليے مسلمان عورتوں پر يہ متعين ہو جاتا ہے كہ وہ اس طريقہ كو اختيار كريں جس پر امہات المومنين اور صحابہ كرام كى عورتيں تھيں، اور اس امت ميں سے ا نكى بہتر طريقہ پر پيروى كرنے والوں كى عورتوں كى راہ كو اختيار كريں.

اور ستر پوشى اور عزت و حشمت اور عفت و پاكدامنى كى حرص ركھيں، كيونكہ يہ فتنہ كے اسباب سے بہت دور ہے، اور پھر خواہشات اور فحش كاموں كے اسباب كو ابھارنے والى اشياء سے نفس كو پاك صاف ركھتا ہے.

اسى طرح مسلمان عورتوں كو اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى كرتے، اور اللہ كى جانب سے اجر و ثواب كى اميد، اور اللہ تعالى كے عقاب و سزا كا خوف ركھتے ہوئے اللہ تعالى اور اس كے رسول كے حرام كردہ لباس جس ميں كفار، اور فاحشہ عورتوں كى مشابہت ہوتى ہو سے اجتناب كرنا چاہيے.

اسى طرح ہر مسلمان پر واجب ہے كہ وہ اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اپنے ماتحت عورتوں كے متعلق اللہ سے ڈرے، اور انہيں اللہ تعالى اور رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى جانب سے حرام كردہ فحش اور ننگا اور پرقتن لباس نہ پہننے دے، اور اسے يہ معلوم ہونا چاہيے كہ وہ ايك ذمہ دار ہے ا ور اس نے اپنى رعايا كے متعلق روز قيامت جواب دينا ہے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ مسلمانوں كى حالت درست كرے اور ہم سب كو صحيح راہ كى توفيق نصيب فرمائے، يقينا اللہ تعالى سننے والا اور قبول كرنے والا اور قريب ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 17 / 290 ).

اور فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں يہ بھى درج ہے:

اولاد كے سامنے وہ كچھ ننگا اور ظاہر كرنا جائز ہے، جسے ظاہر كرنا اور ننگا كرنا عادت ہو مثلا: چہرہ، ہاتھ، بازو، پاؤں وغيرہ . اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 17 / 297 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب