الحمد للہ.
ملازم پر وہ تمام تر کام اور ذمہ داریاں ادا کرنا لازم ہوتا ہے جو معاہدے میں ذکر کی گئی ہوں، چنانچہ اگر کوئی ملازم اپنی ان ذمہ داریوں میں کوتاہی کا شکار ہوتا ہے تو وہ اتنی ہی تنخواہ کا حقدار ہو گا جتنا اس نے کام کیا تھا۔
اور اگر کام کی مقدار وقت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہو تو ملازم کو اختیار ہے کہ اپنی ملازمت کو جاری رکھے یا ملازمت عارضی کنٹریکٹ ہو تو تجدید نہ کروائے، یا ماہانہ تنخواہ کی بنیاد پر ہو تو پھر مہینے کے بعد کام سے معذرت کر لے۔
لیکن اگر معاہدے میں جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے انہیں قبول کر لے تو اب اس کے لیے اس میں کسی قسم کی کوتاہی کرنے کا جواز نہیں ہے۔
آپ نے جو ذکر کیا ہے کہ کام کے مکمل ہونے کی غیر حقیقی رپورٹ بھیجی جاتی ہے تو یہ دھوکا دہی، اور باطل طریقے سے مال ہڑپ کرنے کے مترادف ہے، حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے مال کو آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ، الا کہ تمہارے درمیان تجارت باہمی رضا مندی سے ہو۔ [النساء: 29]
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (کسی بھی شخص کا مال اس کی رضا مندی کے بغیر حلال نہیں ہے) اس حدیث کو امام احمد: (20172) نے روایت کیا ہے اور البانیؒ نے اسے ارواء الغلیل: (1459) میں صحیح قرار دیا ہے۔
ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جس نے دھوکا دیا وہ مجھ سے نہیں ہے۔) مسلم: (102)
اس لیے آپ مطلوبہ شکل میں کام کرنے کی پوری کوشش کریں، اور کوشش کریں کہ افسران بالا تک اس کی رپورٹ کرتے رہیں۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کی مدد فرمائے، اور اپنے فضل سے رزق عطا فرمائے۔
واللہ اعلم