جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

مسجدنبوی کی زيارت کےوقت سرزد ہونے والی غلطیاں

سوال

مسجد نبوی کی زيارت کے وقت کونسی غلطیاں واقع ہوتی ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بعض حجاج کرام سے مسجد نبوی کی زيارت کے وقت کئى ایک امور میں غلطیاں سرزد ہوتی ہيں :

اول :

بعض حجاج کرام کا یہ اعتقاد ہوتا ہےکہ مسجد نبوی کی زيارت کا حج سے تعلق ہے ، اورمسجد نبوی کی زيارت کے بغیر حج کرنا جائز نہيں بلکہ بعض جاہل قسم کے لوگ تواسے حج سے بھی زيادہ اہم سمجھتے ہيں ! اوریہ اعتقاد باطل ہے ، لہذا حج اور مسجد نبوی کی زیادت کے مابین کوئى تعلق نہيں اورحج اس کے بغیرہی مکمل ہوجاتا ہے، اورمسجدنبوی کی زیارت بھی حج کے بغیرمکمل ہوجاتی ہے ، لیکن عرصہ قدیم سے ہی لوگوں کی یہ عادت بن چکی ہے کہ وہ مسجد نبوی کی زيارت حج کے سفرمیں ہی کرتے ہیں کیونکہ بار بار سفر سے انہیں مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

اوراسی طرح مسجد نبوی کی زيارت حج سے زيادہ اہم بھی نہيں بلکہ حج تو دین اسلام کا ایک رکن ہے اوراس کی ‏عظیم مبادیات میں سے ہے ، لیکن مسجد نبوی کی زيارت کا یہ حکم نہیں ہے، ہمیں علم نہيں کہ اہل علم میں سے کسی ایک نے بھی مسجد نبوی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زيارت کا حکم واجب بتلایا ہو۔

اورجونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( جس نے بھی حج کیا اورمیری زیارت نہ کی اس نے میرے ساتھ ظلم کیا ) یہ حدیث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ ہے اوردینی معلومات کے بھی منافی ہے ، کیونکہ اگر یہ حدیث صحیح ہوتی توپھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زيارت واجبات میں سےسب سے زيادہ واجب ہوتی ۔

دوم :

مسجدنبوی کے بعض زائرین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کا طواف کرتے ہیں، اورحجرہ شریف کی جالیوں اوردیواروں کوچھوتے ہیں ، اوربعض اوقات تواس کا بوسہ بھی لینا شروع کردیتے ہیں اوراپنے رخسار اس کے ساتھ لگاتے ہیں ، یہ سب کچھ بدعات ومنکرات میں سے ہے ، اس لیے کہ کعبہ کے علاوہ کسی اورچيز کا طواف ایسی بدعت ہے جوحرام ہے ، اوراسی طرح بوسہ لینا اورچھونا اوراپنے رخسارلگانا کعبہ کی خاص جگہ پر ہی مشروع ہے ، لہذا اس طرح حجرہ شریف کی دیواروں اورجالیوں کو ذریعہ عبادت بنانے سےانسان اللہ تعالی سے دوری کے علاوہ کچھ حاصل نہيں کرتا۔

سوم :

بعض زائرین کرام منبر اورمحراب اورمسجد کی دیواروں کوچھوتے ہیں اوریہ سب کچھ بدعات میں شامل ہے ۔

چہارم :

یہ غلطی بہت عظیم اور سنگین گناہ ہے کہ بعض زائرین کرام اپنے مصائب دورکرنے کے لیے یا اپنی فرمائشیں پوری کروانے کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارتے ہیں یہ شرک اکبر اوردین اسلام سے خارج کردینے والا گناہ ہے اللہ اور اسکا رسول کسی صورت میں اسے پسند نہیں کرسکتے، اللہ تعالی کا فرمان ہے :

( وأن المساجد لله فلا تدعوا مع الله أحدا )

اورمسجدیں تواللہ تعالی کے لیے ہی خاص ہیں لہذا تم اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو الجن ( 21 )

ایک اور مقام پر اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

( وقال ربكم ادعوني أستجب لكم إن الذين يستكبرون عن عبادتي سيدخلون جهنم داخرين )

اورتمہارے پروردگار کا کہنا ہےکہ مجھے ہی پکارومیں تمہاری پکارکا جواب دیتا ہوں ، اور وہ لوگ جومیری عبادت کرنے سے تکبر کرتے ہیں وہ ذلیل ورسوا کرکے جہنم میں ڈال دیے جائيں گے غافر ( 60 ) ۔

اورایک مقام پراللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :

( إن تكفروا فإن الله غني عنكم ولا يرضى لعباده الكفر )

اگر تم کفر کروگے تواللہ تعالی تم سے بے پرواہ ہے اوروہ اپنے بندوں کے لیے کفرپسند نہیں کرتا الزمر ( 71 )

جب نبی کريم صلی اللہ علیہ وسلم نےايك شخص كا يہ قول " جواللہ تعالی اورآپ چاہیں " پسند نہيں كيا بلكہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ڈانٹتے ہوئے فرمایا : ( کیا تونے مجھے اللہ کا شریک بنا دیا ہے ، اللہ تعالی اکیلا ہی جوچاہے ) ابن ماجہ (2118 )

توپھر اس شخص کے بارہ میں کیا ہوگا جورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوپکارے اوران سے مانگے اوراپنی تکلیفات دورکرنے کا کہے اوران سے نفع مانگے حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :

( قل لا أملك لنفسي نفعا ولا ضرا إلا ما شاء الله )

آپ فرمادیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لیے کسی نفع اورنقصان کا اختیارنہيں رکھتا مگراتنا ہی کہ جتنا اللہ تعالی چاہے الاعراف ( 188 ) ۔

اورایک دوسرے مقام پر فرمایا :

( قل إني لا أملك لكم ضرا ولا رشدا قل إني لن يجيرني من الله أحد ولن أجد من دونه ملتحدا )

کہہ دیجئے کہ میں تمہارے کسی بھی نفع اورنقصان کا مالک نہیں ہوں، کہہ دیجئے کہ مجھے ہرگز کوئی بھی اللہ تعالی سے نہيں بچا سکتا اورمیں کسی صورت میں اسکے سوا کہيں اورجائے پناہ بھی نہيں پا سکتا الجن ( 21 )

لہذا مومن کوچاہیے کہ وہ اپنی امیدیں اور چاہتیں اس خالق ومالک سے ہی وابستہ کرے جس نے اسے پیدا فرمایا ہے، جو اسکی خواہشات کو پورا کرنے کا اختیار بھی رکھتا ہے، اور جس سے اسے خدشہ اورڈر ہو اُسے دور کرنے کا بھی اختیار اسی کے پاس ہے، اورمومن کوچاہیے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان، اُن سے محبت ، ظاہری وباطنی اتباع وپیروی اوراطاعت کے حق کو پہچانے،اور اللہ تعالی سے اس پرثابت قدم رہنے کی توفیق طلب کرتا رہے اوراللہ تعالی کی عبادت غیر شرعی طریقے سے مت کرے.

ماخذ: شیخ محمدابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کی کلام ختم ہوئی ، دیکھیں کتاب : "اخطاء یقع فیہا الحاج والمعتمر "