الحمد للہ.
ذيل ميں چند ايك شرعى نصوص ذكر كى جاتى ہيں جو آپ صدقہ و خيرات كى ترغيب كے ليے ذكر كر سكتى ہيں، اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ اس سے نفع دے اور آپ كو اجروثواب سے نوازے.
فرمان بارى تعالى ہے:
اے ايمان والو! جو كچھ ہم نے تمہيں ديا ہے اسميں سے وہ دن آنے سے قبل اللہ كے راستے ميں خرچ كرلو جس دن نہ كوئى تجارت ہو گى، اور نہ ہى دوستى كام آئے گى، اور نہ سفارش، اور كافر ہى ظالم ہيں البقرۃ ( 254 ).
اور ايك مقام پر اللہ سبحانہ وتعالى نے فرمايا:
جو لوگ اللہ تعالى كے راستے ميں خرچ كرتے ہيں ان كى مثال اس دانے كى ہے جس نے سات بالياں اگائيں، اور ہر سٹے اور بالى ميں سو دانے ہيں، اور اللہ تعالى جسے چاہتا ہے اس سے بھى زيادہ ديتا ہے، اور اللہ تعالى وسعت والا اور جاننے والا ہے، جو لوگ اللہ تعالى كے راستے ميں خرچ كرتے ہيں اور پھر جو كچھ انہوں نے خرچ كيا ہے اس ميں احسان نہيں جتلاتے اور نہ تكليف ديتے ہيں، ان كا اجر ان كے رب كے پاس ہے، نہ تو انہيں كوئى خوف ہو گا اور نہ ہى وہ غمگين ہونگے البقرۃ ( 261 - 262 ).
اور ايك مقام پر اللہ تعالى نے اس طرح فرمايا:
اے ايمان والو! جو تم نے پاكيزہ كمايا ہے اس ميں سے خرچ كرو، اور جو ہم نے زمين سے نكالا ہے وہ خرچ كرو، اور تم گندى اور خراب چيز خرچ كرنے كا ارادہ نہ كرو، حالانكہ تم خود اسے لينے والے نہيں ہو مگر يہ كہ آنكھيں بند كر كے، يہ جان لو كہ اللہ تعالى بے پرواہ اور تعريف كے لائق ہے البقرۃ ( 267 ).
اور ايك مقام پر فرمان بارى تعالى ہے:
اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر ايمان لے آؤ، اور اس سے خرچ كرو جس پر اللہ تعالى نے تمہيں ( دوسروں كا ) جانشين بنايا ہے، وہ لوگ جو تم ميں سے خرچ كرينگے ان كے ليے بہت بڑا اجروثواب ہے الحديد ( 7 ).
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے پاكيزہ كمائى سے ايك كھجور كے برابر صدقہ كيا ـ اللہ تعالى پاكيزہ كے علاوہ كچھ قبول نہيں كرتا ـ اللہ تعالى اسے اپنے دائيں ہاتھ سے قبول فرماتا ہے، پھر اسے خرچ كرنے والے كے ليے اس كى ايسے پرورش كرتا ہے جس طرح تم ميں كوئى اپنے گھوڑے كے بچھيرے كى پرورش كرتا ہے، حتى كہ وہ پہاڑ كى مانند ہو جاتا ہے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1344 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1014 )
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہر دن ميں صبح كے وقت دو فرشتے نازل ہوتے ہيں، ان ميں سے ايك كہتا ہے: اے اللہ خرچ كرنے والے كو نعم البدل دے، اور دوسرا كہتا ہے: اے اللہ روك كر ركھنے والے كا مال تلف كردے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1374 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1010 )
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ عيد الفطر يا عيد الاضحى كے دن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيدگاہ كى طرف نكلے اور پھر وہاں لوگوں كو وعظ و نصيحت فرمائى اور انہيں صدقہ و خيرات كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:
" لوگو! صدقہ كيا كرو.
اور عورتوں كے پاس سے گزرے تو فرمايا:
اے عورتوں كى جماعت! صدقہ كيا كرو، كيونكہ ميں نے ديكھا ہے كہ تمہارى تعداد آگ ميں سب سے زيادہ ہے...
اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے گھر تشريف لے گئے تو ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كى بيوى زينب رضى اللہ تعالى عنہا اندر آنے كى اجازت مانگنے لگى: تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كي گيا يہ زينب رضى اللہ تعالى عنہا آئى ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ نے دريافت كيا كونسى زينب؟
تو كہا گيا كہ ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كى بيوى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہاں اسے اجازت دے دو، تو اسے اندر آنے كى اجازت دے دى گئى.
وہ كہنے لگى: اے اللہ تعالى كے نبى صلى اللہ عليہ وسلم آپ نے آج صدقہ و خيرات كرنے كا حكم ديا ہے، اور ميرے پاس ميرا زيور ہے ميں اسے صدقہ كرنا چاہتى ہوں، تو ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كا خيال ہے كہ وہ اور اس كى اولاد اس صدقہ كى زيادہ مستحق ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما نے سچ كہا ہے، تيرا خاوند اور تيرى اولاد كسى دوسرے پر صدقہ كرنے سے زيادہ حقدار ہے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1393 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 80 ).
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى كا فرمان ہے: اے ابن آدم خرچ كر ميں تجھ پرخرچ كرونگا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5073 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 993 )
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
واللہ اعلم .