الحمد للہ.
شيخ محمد ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
عرفات سے مزدلفہ جاتے ہوئے سرزد ہونے والی بعض غلطیاں :
اول :
عرفات سے مزدلفہ روانہ ہوتے وقت لوگوں كى جانب سے كچھ تنگى سى پيدا ہوتى ہے، اس ميں لوگوں كى شديدجلد بازى شامل ہے جوبعض اوقات گاڑیوں کے حادثات کا باعث بنتی ہے ، حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم توعرفات سے بہت سکون واطمنان کے ساتھ روانہ ہوئے تھے ، اورحالت یہ تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے توآپ کی اونٹنی قصواء کی لگام اس طرح کھنچی ہوئى تھی کہ اس کی گردن دوہرى ہو چكى تھی اورآپ اپنے ہاتھ کریم سے لوگوں کویہ فرمارہے تھے :
اے لوگو! سکون وآرام سے سکون وآرام سے ، لیکن اس کے باوجود جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کھلی جگہ پہنچتے توآپ تیز چلتے اورجب کسی چڑھائى اوراونچی جگہ پرپہنچتے تو اپنی اونٹنی کی لگام ڈھیلی کردیتے تا کہ وہ چڑھائى چڑھ سکے ، تواس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفر کی چال میں حالات کا خیال رکھا کرتے تھے ، لیکن معاملہ جب اس طرح ہو کہ آیا جلدی کرنا افضل ہے یا پھر آرام وسکون سے ؟ توآرام اورسکون سے چلنا افضل ہوگا ۔
دوم :
بعض لوگ مزدلفہ پہنچنے سے قبل ہی پڑاؤ ڈال دیتے ہیں اورخاص کران میں سے وہ لوگ جوپیدل چل کرتھک چکے ہوتے ہیں وہ مزدلفہ پہنچنے سے قبل ہی پڑاؤ ڈال لیتے ہیں اورفجرکی نماز ادا کرنے تک وہیں رہتے ہيں اورنماز ادا کرکے وہیں سے منی روانہ ہوجاتے ہیں ، چنانچہ جس شخص نے بھی ایسا کیا وہ مزدلفہ میں رات نہیں بسر کرسکا اوریہ معاملہ بہت خطرناک ہے کیونکہ مزدلفہ میں رات بسر کرنی توبعض اہل علم کے ہاں حج کے ارکان میں سے ایک رکن اورجمہور اہل علم کے ہاں حج کے واجبات میں سے ایک واجب اوربعض کے قول کے مطابق سنت ہے ، اورصحیح یہ ہے کہ یہ واجبات حج میں سے ہے، اس لئے انسان پر مزدلفہ میں رات بسر کرنی ضروری ہے ، اور وہ وہاں سے شریعت کے مقرر کردہ وقت سے پہلے روانہ نہيں ہوسکتا جس کا ذکر ان شاء اللہ آگے بیان ہوگا ۔
سوم :
بعض لوگ عادت کے مطابق مزدلفہ پہنچنے سے قبل راستے میں ہی مغرب اورعشاء کی نماز ادا کرلیتےہیں ، جوکہ سنت نبویہ کے خلاف ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب راستے میں اترے اورپیشاب کرنے کےبعد وضوء کیا تواسامہ بن زيد رضى اللہ تعالی عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی اے اللہ کے رسول ! نماز ؟ تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نماز آگے چل کر۔ بخاری (1669) مسلم (1280) اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک نماز ادا نہيں کی جب تک مزدلفہ نہيں پہنچ گئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ پہنچے توعشاء کی نماز کا وقت ہوچکا تھا لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں مغرب اورعشاء جمع تاخیر کیساتھ پڑھی ۔
چہارم :
بعض لوگ اس وقت تک مغرب اورعشاء کی نماز ادا ہی نہيں کرتے جب تک وہ مزدلفہ میں نہ پہنچ جائيں اگرچہ نماز عشاء کا وقت بھی ختم ہوجائے ،ایسا کرنا جائز نہيں بلکہ حرام اورکبیرہ گناہ ہے ، کیونکہ نماز کواس کے وقت سے مؤخر کرنا کتاب وسنت کے دلائل کے مطابق حرام ہے ، فرمانِ باری تعالی ہے:
( إن الصلاة كانت على المؤمنين كتابا موقوتا)
یقینا مومنوں پر نماز کی ادائيگى وقت مقررہ پر فرض کی گئی ہے النساء ( 103 ) ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اوقات بیان کردیے ہیں اور انکی حد بندی بھی فرمادی۔
اور حدود کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
( ومن يتعد حدود الله فقد ظلم نفسه )
اورجوکوئى بھی اللہ تعالی کی حدود کوپھلانگتا ہے اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا الطلاق ( 1 ) ۔
اورایک دوسرے مقام پراللہ تعالی کا فرمان ہے :
) ومن يتعد حدود الله فأولئك هم الظالمون(
اورجوکوئى اللہ تعالی کی حدود کوپھلانگے وہ ہی ظالم ہیں البقرۃ ( 229 ) ۔
لہذا جب کسی انسان کویہ خدشہ ہوکہ مزدلفہ پہنچنے سے قبل عشاء کی نماز کا وقت بھی نکل جائے گا، تواس پرواجب یہ ہے کہ وہ اسی حالت میں نماز پڑھ لے چاہے ابھی مزدلفہ نہ پہنچا ہو، اگر وہ پیدل چل رہا ہے توٹھہر جائے اورنماز قیام اوررکوع وسجود کے ساتھ ادا کرے ، اوراگر وہ سوار ہے اورسواری سے نیچے اترناممکن نہيں تووہ بھی نماز ادا کرلے اگرچہ گاڑی پر ہی ادا کرے ۔
اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
( فاتقوا الله ما استطعتم )
اپنی استطاعت اورطاقت کے مطابق اللہ تعالی کا ڈروتقوی اختیار کرو التغابن / 16
اگرچہ ایسی حالت میں سواری سے نیچے نہ اترنے کا تصور بعید لگتا ہے، کیونکہ ہرانسان کے لیے ممکن ہے کہ وہ اترکرسڑک کے دائيں یا بائیں جانب کھڑا ہوکرنماز ادا کرسکتا ہے ۔
بہرحال کسی کے لیے جائز نہيں کہ وہ نماز مغرب اورعشاء کواتنا مؤخر کردے کہ عشاء کی نماز کا وقت بھی ختم ہوجائے اوردلیل یہ دے کہ میں سنت پرعمل کرنا چاہتا ہوں اورنماز مزدلفہ میں ہی ادا کرونگا کیونکہ اس کی یہ تاخیر سنت کے مخالف ہے ، کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کومؤخر توکیا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کووقت میں ادا فرمایا ۔
پنجم :
کچھ حجاج کرام نماز فجر وقت سے قبل ہی ادا کرلیتے ہیں اوروہ نماز ادا کرکے وہاں سے چل دیتے ہيں جوکہ بہت عظیم غلطی ہے کیونکہ وقت سے پہلے نماز کی ادائیگی سے نماز قبول نہیں ہوتی، ایسا کرنا حرام ہے اس لئے کہ یہ حدود اللہ کوپھلانگنے اوراس پر زيادتی کے مترادف ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ نماز وقت مقررہ پرفرض ہے اوراس کے ابتدائى اورآخری وقت کی حد بندی بھی شریعت نے کردی ہے ، لہذا کوئی بھی نماز کے وقت سے پہلے نماز ادا نہیں کرسکتا۔
چنانچہ حاجی کواس مسئلہ پرمتنبہ رہنا چاہیے اورنماز فجر اس وقت تک ادا نہ کرے جب تک اسے یقین نہ ہوجائے یا کم از کم اس کا ظن غالب یہ ہوکہ فجر کا وقت شروع ہوچکا ہے ، یہ صحیح ہے کہ مزدلفہ میں نماز فجرجلد ادا کرنی چاہیے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جلدی ادا کی تھی، لیکن اس کا معنی یہ نہیں کہ وقت سے بھی پہلے نماز ادا کرلی جائے ، لہذا حاجی کواس عمل سے بچنا چاہیے ۔
ششم :
بعض حجاج کرام مزدلفہ میں بہت ہی قلیل سی مدت رکنے کے بعد وہاں سے چل دیتے ہیں ، آپ دیکھیں گے وہ وہاں سے گزرتا جا رہا ہے اورمزدلفہ میں ٹھہرتا ہی نہيں اور سمجھتا ہے کہ گزرنا ہی کافی ہے ، یہ بھی سنگین غلطی ہے ،کیونکہ وہاں سے صرف گزرنا ہی کافی نہیں بلکہ سنت تواس پردلالت کرتی ہے کہ حاجی مزدلفہ میں نماز فجر کی ادائيگی تک رہے اورنماز ادا کرنے کےبعد مشعرالحرام کے پاس کھڑا ہوکر بہت زيادہ سفیدی ہونے تک دعا کرتا رہے اوراس کے بعد منی کی جانب روانہ ہو ( سفیدی کا معنی یہ ہے کہ طلوع شمس سے قبل دن کی روشنی پھیل جائے )
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل وعیال میں سے کمزور اشخاص کواجازت دی تھی کہ وہ رات کے وقت ہی مزدلفہ سے روانہ ہوجائیں ، اوراسماء بنت ابی بکر رضى اللہ عنہما چاند غروب ہونے کا انتظار کیا کرتی تھیں اورجب چاند غروب ہوجاتا تووہ مزدلفہ سے منی کی طرف روانہ ہوجاتیں ، یہ - چاندغروب ہونے کے بعدمزدلفہ سے منی روانہ ہونا - حد فاصل ہے کیونکہ صحابی کا فعل ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل وعیال میں سے کمزوراشخاص کورات کےوقت روانہ ہونے کی اجازت دی تھی اوراس حدیث میں رات كى حد کوبیان نہیں کیا ، لیکن صحابی کا فعل اس کا بیان اورتفسیر ہوسکتا ہے ، لہذا ضروری یہ ہے کہ کمزوراشخاص جنہيں ازدھام کی بنا پرتکلیف ہونے کا خدشہ ہو ان کے لیے چاند غروب ہونے کی قید لگانا ضروری ہے ، اوردسویں رات چاند آدھی رات کے بعد غروب ہوتا ہے اورتقریبا رات کادو تہائى حصہ ختم ہوچکاہوتا ہے ۔
ہفتم :
بعض لوگ مزدلفہ کی رات وہاں پررات کوقرآن مجید کی تلاوت اورذکر واذکار اورقیام کرکے بیدار رہ کر بسرکرتے ہیں جوکہ سنت کے خلاف ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات ایسے عبادت نہیں کی ، بلکہ صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث ہے کہ : رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عشاء کی نماز ادا کی تولیٹ گئے اورطلوع فجر تک سوتے رہے پھر نماز فجر ادا کی ۔
تویہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اس رات میں تہجد یا عبادت یا ذکر واذکار اورتسبیح وتحمید اورقرآن مجید کی تلاوت نہيں ہے۔
ہشتم :
بعض حجاج کرام مزدلفہ میں طلوع شمس تک ب ٹھہرے رہتے ہیں اورنماز اشراق ادا کرنے کے بعد منی روانہ ہوتے ہیں ، جوکہ صحیح نہیں بلکہ ایسا کرنا غلط ہے ، کیونکہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ اورسنت کی مخالفت اورمشرکوں کے طریقہ کی موافقت ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تومزدلفہ سے طلوع شمس ہونے سے قبل ہی جب اچھی طرح روشنی ہوچکی تھی تو منی روانہ ہوگئے تھے ، اورمشرک طلوع شمس کا انتظار کیا کرتے تھے ۔
لہذا جوبھی طلوع شمس تک مزدلفہ میں رہ کر عبادت کرتا رہا اس نے مشرکوں سے مشابہت اختیار کی اورسیدالمرسلین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ۔ انتہی .