سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

وکیل کےمیقات کا اعتبار ہوگا

سوال

دوبرس قبل ایک شخص حج کی طاقت رکھے بغیر فوت ہوگیا اوراب اس کا خاندان اوراولاد اس کی جانب سے حج کرنا چاہتے ہیں ، لیکن ان کے پاس اتنی رقم نہيں کہ وہ کسی ایک کوپاکستان سے فوت شدہ کی جانب سے حج کے لیے بھیج سکیں ، تواس لیے وہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ مکہ میں رہائش پذیر کسی مسلمان کواس کا وکیل بنائيں اوراسے قربانی اورحج کے اخراجات دیں تا کہ وہ اس فوت شدہ کی جانب سے اس طرح حج کی ادائيگي کرے اورثواب بھی حاصل کرے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

علماء کرام کا صحیح قول یہی ہے کہ کسی دوسرے کی طرف سے حج کرنے والے نائب کے میقات کا اعتبار کیا جائے گا کیونکہ وہ خود بنفس نفیس حج کررہا ہے ، اوراس میں جس کی جانب سے حج یا عمرہ کیا جارہا ہے اس کے میقات کا اعتبار نہيں کیا جائے گا ۔

تواس بنا پرآپ کے لیے جائز ہے کہ آپ اپنے والد کی جانب سے حج کے لیے اہل مکہ وغیرہ جوحرم کے قریب رہتے ہیں ان میں سے کسی ایک کووکیل بنادیں .

ماخذ: دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 11 / 134 ) ۔