بدھ 17 جمادی ثانیہ 1446 - 18 دسمبر 2024
اردو

ایک شخص اسلام قبول کرنا چاہتا ہے لیکن مرتد کے قتل، لونڈیوں ، اور جنات و جادو کے بارے میں مطمئن نہیں ہے۔

سوال

میری پیدائش ایک عیسائی گھرانے میں ہوئی ہے لیکن ایک طویل سوچ بچار کے بعد اب میں یہ سوال لکھ رہا ہوں اور میں یہ فیصلہ کر چکا ہوں کہ میں مسلمان ہو جاؤں گا اس لیے میں کلمہ شہادت پڑھتا ہوں، لیکن یہ ہے کہ میں اعلانیہ طور پر اسلام قبول نہیں کروں گا؛ کیونکہ میرے والد نے مجھ پر قسم دی ہے کہ اگر میں مسلمان ہو گیا تو وہ مجھے گھر سے نکال دیں گے، اس سے پہلے میری کلاس فیلو سہیلی اور مسلمان بہن نے مجھے قرآن مجید پڑھنے کے لیے دیا تھا تو میرے والد نے قرآن کریم پھاڑ دیا اور مجھے گھر سے نکال دینے کی دھمکی بھی دی۔

اس وقت میں کچھ مسائل کے بارے میں سمجھنا چاہتا ہوں، انہی مسائل کے بارے میں ناکافی معلومات میرے لیے اسلام قبول کرنے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں، مثلاً: اسلام میں غلام اور لونڈی رکھنا کیوں جائز ہے؟ جادو اور جنات کا اسلام کیوں قائل ہے ؟ اور آخری بات یہ کہ مرتد کی سزا قتل کیوں ہے؟ مرتد کی سزا سے تو مجھے لگتا ہے کہ اسلام قبول کر کے میں اپنے آپ کو بڑی مشکل میں ڈال دوں گا اور اگر اسلام قبول کر کے ترک کیا تو مجھے قتل کر دیا جائے گا! میں نے ایک بار کسی امام مسجد سے پوچھا تو انہوں نے بھی مجھے یہی کہا کہ اسلام قبول کرنا ہے تو مکمل یقین کے ساتھ اور اسلامی احکامات کے بارے میں ایسی سوچ نہیں رکھنی۔ لیکن میں اس طرح سے نہیں چل سکتا؛ کیونکہ میں جس وقت عیسائی ہوتے ہوئے جب یہ سوچ سکتا ہوں کہ میں مسلمان ہو جاؤں تو یہ بھی میرا حق ہے کہ میں اسلام کے بعض احکامات پر اعتراض بھی کر سکوں۔ مجھے بتلائیں کہ کیا میرا اس انداز سے سوچنا مجھے اسلام کے دائرے میں رہنے دے گا؟ یا میں کافر ہو جاؤں گا؟

الحمد للہ.

اول:

سب سے پہلے تو ہم آپ کو آپ کی مثبت سوچ پر مبارکباد پیش کرتے ہیں، اور ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کا ہاتھ تھام لے، آپ کی رہنمائی فرمائے اور اپنے دین میں داخل فرما لے، آپ کی جانب آنے والے شیطانی خیالات ختم کر دے۔

دوم:

دین کی بنیاد عبدیت اور ہر طرح سے اللہ تعالی کی اطاعت گزاری پر قائم ہے، چنانچہ اللہ تعالی کو رب اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو رسول ماننے والے پر لازمی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے کہی ہوئی ہر بات کو تسلیم کرے، لہذا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کوئی حدیث صحیح ثابت ہو جائے تو اس کو ضرور مانے چاہے اس کی حکمت ہمیں معلوم نہ ہو، لیکن یہ جتنے بھی اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات اٹھائے جاتے ہیں ان تمام کی حکمتیں معلوم ہیں اور ان کے دلائل بھی موجود ہیں، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جب عقل ان احکامات کی تفصیلات پہچان لے تو ان پر ایمان لائے بغیر اسے کوئی چارہ ہی نہیں ملتا، اور عقل تسلیم کرتی ہے کہ یہ احکامات واقعی حکمت کے عین مطابق ہیں۔

اسلام غلاموں کی آزادی چاہتا ہے

اسی میں لونڈی کا مسئلہ بھی شامل ہے؛ واضح رہے کہ جس وقت اسلام کی تبلیغ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے شروع فرمائی تو لونڈی کا تصور اس وقت تمام معاشروں اور اقوام میں موجود تھا، حتی کہ آسمانی مذاہب یعنی یہودیت اور عیسائیت میں بھی لونڈی بنانے کی اجازت تھی! لیکن اسلام نے آ کر ان غلاموں اور لونڈیوں کی آزادی کے اسباب پیدا کیے اور ایسے احکامات وضع کیے کہ جن کی بدولت بہت سے غلام آزاد ہو گئے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غلاموں کی اکثریت آزاد ہو چکی تھی، چنانچہ اسلام نے غلام آزاد کرنے کی ترغیب دلائی، غلام آزاد کرنے کا بہت زیادہ ثواب مقرر کیا۔ لہذا قتل، ظہار، رمضان میں روزے کی حالت میں جماع کرنا، اور قسم کا کفارہ سمیت مختلف کفارے ادا کرنے کے لیے غلام آزاد کرنے کا اختیار دیا، چنانچہ اگر آج غلام موجود ہوتے تو بہت سے لوگوں کے لیے آسانی ہوتی اور مسلسل 60 روزے رکھنے کی بجائے غلام آزاد کر دیا جاتا!

چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جس وقت اثر و رسوخ رکھنے والے ممالک نے غلام رکھنے پر پابندی لگائی تو اسلامی معاشروں میں غلاموں کی تعداد ویسے ہی بہت ہی معمولی سی رہ گئی تھی۔

پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایسے احکامات اور آداب بھی شریعت میں شامل فرمائے جن کی بدولت اکثر معاملات میں غلام بھی آزاد افراد کی صفوں میں شمار ہونے لگے، چنانچہ آزاد افراد کی طرح انہیں مارنے اور ان کی بے عزتی کرنے کو حرام قرار دیا گیا۔ آقا کو حکم دیا کہ اپنے کھانے میں سے غلام کو بھی کھلائے، اپنے لباس میں سے اسے بھی پہننے کو دے، اور طاقت سے بڑھ کر اس پر بوجھ نہ ڈالے، بلکہ اگر کوئی آقا اپنے غلام کو تھپڑ رسید کر دے یا مارے تو اس کا کفارہ آزادی مقرر کر دیا!

ہم یہاں تنگی داماں کے باعث اس سے متعلقہ مکمل شرعی عبارتیں تو نقل نہیں کر سکتے تاہم پھر بھی کچھ یہاں بیان کر دیتے ہیں، تا کہ آپ کو اندازہ ہو کہ اسلام نے غلاموں کی آزادی کے لیے کون کون سے اقدامات کیے ہیں کہ فرض کریں کہ اگر کوئی غلام آزادی حاصل نہیں کر پاتا تو پھر اس کا خیال رکھنے کے بارے میں خوب نصیحت بھی فرمائی۔

چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مسلمان غلام آزاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالی غلام کے ہر عضو کے بدلے میں آقا کے ہر عضو کو جہنم سے آزاد فرما دیتا ہے، حتی کہ غلام کی شرمگاہ کے بدلے میں آقا کی شرمگاہ کو بھی آزاد فرما دیتا ہے۔)
اس حدیث کو امام بخاری: (6715) اور مسلم : (1509)نے روایت کیا ہے۔

اسی طرح صحیح مسلم (1657)میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (کوئی بھی اپنے غلام کو تھپڑ مارے یا اسے پیٹے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کر دے)

نیز جامع ترمذی: (1542) میں سوید بن مقرن مزنی سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم سات بھائیوں کی ایک ہی خادمہ تھی، تو اسے ہمارے ایک بھائی نے تھپڑ دے مارا، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اسے آزاد کر دیں۔

اسی طرح معرور بن سوید کہتے ہیں کہ میں ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ربذہ جگہ پر ملا، آپ نے ایک سوٹ [قمیص، تہبند اور اوپر چادر پر مشتمل]  پہنا ہوا تھا ، اور ویسا ہی سوٹ آپ کے غلام پر بھی تھا۔ یہ منظر دیکھ کر اس بارے میں ان سے دریافت کیا تو جناب ابو ذر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: میں نے اس غلام کو برا بھلا کہتے ہوئے اس کی ماں کی طرف سے اسے عار دلائی، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے فرمایا: (ابو ذر کیا تم نے اسے اس کی ماں کی عار دلائی ہے؟ تم تو ایسے آدمی جس میں ابھی بھی جاہلیت ہے! یہ غلام تمہارے بھائی اور اللہ تعالی کی طرف سے تمہارے لیے عطیہ ہیں، اللہ تعالی نے انہیں تمہارے زیر سایہ بنایا ہے، لہذا اگر کسی کا بھائی اسی کی زیر نگرانی ہو تو اسے وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے، اسے وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے، اور ان سے ان کی طاقت سے زیادہ کام مت لو، اور اگر انہیں کوئی کام ایسا کہہ بھی دو تو ان کی مدد کرو)
اس حدیث کو امام بخاری: (30) اور مسلم : (1661)نے روایت کیا ہے۔

اس مسئلے سے متعلق گفتگو پہلے بہت سے سوالات میں ہو چکی ہیں اور ہم وہاں پر اچھی خاصی بحث بھی کر چکے ہیں اور واضح کر دیا ہے کہ اسلام میں تصورِ غلامی اسلام کا روشن باب ہے۔

چنانچہ آپ اس بارے میں تفصیلات جاننے کے لیے سوال نمبر: (94840 ) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

سوم:

مرتد کے سزا مقرر کرنے کی حکمت:

مرتد کو قتل کرنے کی سزا کمالِ شریعت کی دلیل ہے، اس سزا سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شریعت دینی اقدار کی حفاظت کرنا چاہتی ہے، اور صرف اقدار ہی نہیں بلکہ خود اس شخص کی جان کا تحفظ بھی چاہتی ہے؛ لہذا شریعت ہر شخص کو ارتداد کی طرف دعوت دینے والے شیطان کے پیچھے لگنے سے روکتی ہے ؛ کیونکہ جب اسے علم ہو جائے گا کہ میرا انجام قتل ہو گا تو انسان غور و فکر کرے گا اور جلد بازی سے کام نہیں لے گا، اور پھر عام طور دل میں پیدا ہونے والے شبہات ویسے ہی دم توڑ جاتے ہیں اور معاشرے کو تحفظ ملتا ہے؛ کیونکہ ایک شخص مرتد ہو جائے تو کمزور لوگوں کے دلوں میں بھی شکوک پیدا ہو جائیں، اور اگر مرتد ہونے والے لوگ زیادہ ہو جائیں تو زبان زد عام ہو جائے کہ: اگر یہ دین جھوٹا ہوتا تو فلاں شخص اسے کبھی نہ چھوڑتا۔

تو چونکہ اللہ تعالی کی ذات اپنے بندوں کے ساتھ نہایت رحم دل ہے، اس لیے اپنے بندوں سے کفر پسند نہیں فرماتا، بلکہ ان کے دینی تشخص کی حفاظت فرماتا ہے، اور ہر ایسی چیز کو اپنے بندوں سے دور رکھتا ہے جس کی وجہ سے ان کا ایمان کمزور ہو جائے، یا ایمان کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوں۔

ویسے بھی اگر مرتد ہونے کے بعد اس شخص کو ایسے ہی چھوڑ دیا جائے تو یہ کافروں کے لیے بہت ہی بڑا موقع ہوتا کہ پہلے تو مسلمان ہونے کا اعلان کر دیں، اور پھر مسلمان ہونے کے بعد کفر کی ترویج شروع کر دیں، بڑے امن و سکون کے ساتھ الحاد اور کفر پھیلانے لگیں، یا بالکل واضح کہہ دیں کہ وہ چونکہ اسلام پر مطمئن نہیں ہیں اس لیے وہ دوبارہ کافر ہو گئے ہیں، اس طرح تو لوگوں کو اپنے عقائد کے بارے میں شک ہونے لگے گا، اور ان کی فطری اچھی سوچ بھی گدلی ہو جائے گی، لوگوں میں کفریہ باتیں عام ہو جائیں گی۔ یہ چیز ہم آج زمینی حقائق کی صورت میں دیکھ رہے کہ جن علاقوں میں مرتد کی سزا نہیں ہے وہاں لادینیت بڑھتی چلی جا رہی ہے، اگرچہ وہاں بعض قوانین ایسے ہیں جن کی وجہ سے لا دینیت کی بعض صورتیں منع ہیں۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (20327 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

چہارم:

جادو، جنات اور جنوں کا انسانوں کو تنگ کرنا حقیقی چیزیں ہیں ان کا انکار ممکن نہیں ہے۔

جادو، جنات اور جنوں کا انسانوں کو تنگ کرنا یہ امور بھی تمام اقوام اور مذاہب میں مسلمہ ہیں، چنانچہ یہودیت اور عیسائیت سمیت تمام مذاہب میں بھی یہ امور مسلمہ ہیں، بلکہ عیسائی راہبوں اور پادریوں نے جنوں کے بارے میں بہت زیادہ غلو بھی کیا اور انہی جنوں کے ساتھ مصروف رہنے لگے، اور وہ تو بہت سے کام جنوں سے ہی کروایا کرتے تھے، جبکہ جنوں سے مدد لینے کا معاملہ تو مسلمانوں کے ہاں ان کے مقابلے میں بہت معمولی ہے، اور یہ ایسی حقیقت بھی ہے کہ اس کا انکار کرنے کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہے۔

اگر آپ کو آسیب زدہ شخص کا علاج د یکھنے کا موقع ملے تو ضرور جائیں کہ جس وقت اس پر شرعی دم پڑھا جاتا ہے تو آپ کو نظر آئے گا کہ ایک عورت بول رہی ہے اور آواز کسی مرد کی ہے، مرد کی آواز آپ کو بالکل واضح سنائی دے گی، اور ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ کسی اور زبان میں بولے، اور اس عورت کو اس زبان کا ایک حرف بھی معلوم نہ ہو، پھر اس عورت میں حاضر ہونے والا جن اپنے شہر، زبان، دین اور دیگر معلومات کے بارے میں بھی بتلائے گا۔

تو اس لیے عقل کسی پوشیدہ اور غیر مرئی مخلوق کے وجود کی انکاری نہیں ہے، نہ ہی ان غیر مرئی مخلوقات کے انسانی جسم میں داخل ہو کر اس پر تسلط جمانے کی انکاری ہے، اس کے بعد ہمیں بالکل واضح نصوص مل جائیں تو ہمیں ان کی حقیقت کا انکار کیوں کرنے کی ضرورت پڑ رہی ہے؟ حالانکہ ہم نے اپنی آنکھوں سے ان چیزوں کو دیکھ بھی لیا ہے۔

ہم نہیں سمجھتے کہ آپ فرشتوں کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے! حالانکہ ہم نے فرشتوں کو کبھی نہیں دیکھا، ہم صرف اس لیے ان پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ان کے بارے میں اپنے کلام اور رسولوں کی زبانی ہمیں بتلایا ہے۔

پنجم:

کیا عقل ایسے شرعی احکامات پر اعتراض کر سکتی ہے جس پر عقل کو ابھی تک اطمینان حاصل نہیں ہو سکا ہو؟

آپ نے کہا کہ: جس طرح آپ اسلام پر اپنی عقل کی وجہ سے مطمئن ہیں تو یہ بھی آپ کا حق ہے کہ اسلامی احکامات پر اپنی عقل سے اعتراض بھی کر سکیں۔۔۔ تو یہ بات صحیح نہیں ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ:
یہ بات ٹھیک ہے کہ آپ کی عقل نے آپ کو بتلایا کہ اسلام حق ہے۔ یہ اچھی اور صحیح بات ہے۔ اور یہیں پر عقل کا دائرہ اختیار بھی ختم ہو جاتا ہے۔ یعنی اس کے بعد عقل پر لازمی ہے کہ وحی کی باتوں کو من و عن تسلیم کرے کہ جس وحی کو اس نے حق جانا ہے اس کی جزئیات کو بھی حق ہی سمجھے۔ چنانچہ عقل کے پاس یہ حق نہیں ہے کہ شریعت کی لائی ہوئی تفصیلات پر اعتراض کرے؛ کیونکہ جب اس نے یہ تسلیم کر لیا کہ شریعت حق ہے، اور یہ بھی جان لیا کہ وحی نے ہی یہ حکم بتلایا ہے تو اب اس کو تسلیم کرنا لازمی ہے؛ وگرنہ تو وہ اپنے آپ پر ہی اعتراض کر بیٹھے گا!

لہذا عقل نے یہ بتلایا کہ قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے اور اللہ تعالی کی جانب سے وحی ہے، نیز اللہ تعالی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، سب سے بڑا علم رکھنے والا ہے اور اس کا ہر عمل حکمت بھرا ہے۔۔۔ جب عقل نے یہ بتلا دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہمارے سچے رسول ہیں تو اب اس کا مطلب یہ ہے کہ جو احکامات بھی اللہ تعالی نے شریعت میں شامل کیے ہیں وہ حق، مبنی بر عدل، رحمت اور حکمت ہیں۔

تو کیا اب یہ کوئی معقول بات ہو گی کہ عقل دوبارہ سے پھر اللہ تعالی کی شریعت کے کسی حکم پر اعتراض کرنے لگے؟ اور یہ دعوی کرے کہ اسے وہ بات معلوم ہو گئی ہے جو نعوذ باللہ اللہ تعالی کو معلوم نہیں ہو سکی؟ کیا اس رویے کی وجہ سے خود عقل پر سوالیہ نشان کھڑا نہیں ہو جائے گا؟

یہاں مسلمان کی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ یہ پوچھے: کیا یہ حکم واقعی اللہ تعالی کا حکم ہے؟

چنانچہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ اللہ تعالی کا ہی حکم ہے تو سرِ تسلیم خم کرنا واجب ہو جائے گا، پھر اس کے بعد شرعی حکمت تلاش کرے اور پوچھے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ ان احکامات کے آپس میں تعلقات کے بارے میں چھان بین کرے، مقاصد کو تلاش کرنے کے لیے غور و فکر کرے۔ لیکن پھر کوئی شخص اپنے بارے میں یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ وہ ذات باری تعالی سے بڑھ کر علم، حکمت اور رحمت کا مالک ہے۔

لیکن اگر کوئی حکم سرے سے ثابت ہی نہیں ہے؛ قرآن کریم اور صحیح احادیث میں ہے ہی نہیں ، تو وہ اللہ کا حکم بھی نہیں ہے، تو ایسی صورت میں جو شخص چاہے اعتراض کر سکتا ہے۔

محترم! آپ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ شیطان آپ کو اللہ تعالی کی رحمت و فضل سے دور رکھنا چاہتا ہے، شیطان سب سے پہلے آپ کے دل میں شکوک و شبہات ابھارے گا، اور قبول اسلام کے راستے میں پتھر اٹکائے گا۔

اس لیے آپ فوری طور پر کلمہ شہادت پڑھ لیں اور اسلام میں داخل ہو جائیں۔ اور یہ بات اچھی طرح ذہن میں بٹھا لیں کہ دین حق دین اسلام کے بارے میں جو کوئی شبہ اٹھایا جائے تو اس کا نہایت آسان اور مطمئن کرنے والا جواب موجود ہے؛ کیونکہ یہ دین ہی اللہ تعالی کی طرف سے سچا دین ہے۔

ہزار باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ: اگر آپ اللہ تعالی پر ایمان لے آتے ہیں، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لے آتے ہیں تو آپ کو خود بخود یقین ہونے لگ جائے گا کہ شرعی احکامات میں سے کوئی ایک حکم بھی ایسا نہیں ہے جو عدل اور حکمت سے باہر ہو۔

اور اگر فرض کریں کہ آپ ایمان لے آتے ہیں اور کسی ایک کام میں نافرمانی کرتے ہیں لیکن اس کی بنیاد کو تسلیم کرتے ہیں تو یہ بات کافر رہنے سے بہتر ہے۔

اس لیے آپ تاخیر مت کریں، فوری اسلام قبول کریں کیونکہ آپ کو نہیں علم کہ کب آپ کا وقت آ جائے، حالانکہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آپ کے آس پاس کے لوگ اس دنیا سے چلتے جا رہے ہیں کوئی بیماری کی وجہ سے تو کوئی روڈ حادثے کی وجہ سے اس لیے آپ اسلام قبول کرنے میں تاخیر مت کریں۔

نیز اگر آپ اپنا اسلام خفیہ رکھنا چاہتے ہیں تو تب بھی کوئی حرج نہیں ہے، تاہم اپنی استطاعت کے مطابق فرائض ادا کرتے رہیں۔

اور اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (175339 ) ، (188856 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

نیز ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ سے راضی ہو، آپ کی رہنمائی فرمائے، آپ کو اپنے دین میں داخل فرمائے، اور اپنی نعمتیں مکمل فرمائے اور آپ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے۔

ہم امید کریں گے کہ آپ ہمیں اپنے اسلام قبول کرنے کی جلد از جلد خوش خبری سنائیں گے، ہمیں اس سے بہت خوشی ہو گی۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب