بدھ 24 جمادی ثانیہ 1446 - 25 دسمبر 2024
اردو

ائیر گن سے شکار کرنے کا حکم

سوال

میں ایک دیہاتی علاقے میں رہتا ہوں، اور یہاں حلال گوشت دستیاب نہیں ہے، اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ گوشت کا حصول شکار کے ذریعے کروں گا، اور چونکہ میں نہیں چاہتا کہ اپنے پڑوسیوں کو آتشیں اسلحہ کی آواز سے تنگ کروں، میں نے سوچا کہ ائیر گن سے شکار کروں، اس گن میں جو چھرے استعمال کیے جاتے ہیں وہ گول یا چپٹے ہوتے ہیں دھار والے نہیں ہوتے، تو ان چھروں کے استعمال کی وجہ سے پرندہ دباؤ کی وجہ سے شکار ہو گا، دھار کے تیز ہونے کی وجہ سے نہیں، اس گن کے ذریعے شکار کرتے ہوئے لازم ہے کہ 30 گز سے زیادہ فاصلہ نہ ہو اور نشانہ بھی سر کا لیا جائے، میں جو گن استعمال کروں گا ائیر گن کے ماہرین کے مطابق وہ لومڑی کو بھی قتل کر سکتی ہے، عام طور پر ائیر گن چھوٹے شکاروں کے لیے استعمال ہوتی ہے مثلاً : بٹیر ، گلہری، کبوتر، اور خرگوش وغیرہ، تو کیا اس کے ذریعے شکار کرنا جائز ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آلۂ شکار کے لیے ضروری ہے کہ تیز ہو، زخم پیدا کرے اور گوشت کو کاٹ یا پھاڑ دے۔

ائیر گن سے نکلنے والے چھرے گوشت پھاڑ کر جسم میں داخل ہو جاتے ہیں، اس لیے ان سے شکار کرنا درست ہو گا۔

جیسے کہ "الموسوعة الفقهية" (28/ 133) میں ہے کہ:
"آلۂ شکار کے لیے شرائط درج ذیل میں اختصار کے ساتھ پیش کی جا سکتی ہیں کہ:
پہلی شرط: آلۂ شکار کے لیے ضروری ہے کہ تیز ہو، زخم پیدا کرے اور گوشت کو کاٹ کا یا پھاڑ دے، اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ذبح کیے بغیر شکار حلال نہیں ہو گا۔

یہاں یہ ضروری نہیں ہے کہ آلۂ شکار لوہے کا ہی ہو، کسی بھی تیز آلے سے شکار کیا جا سکتا ہے چاہے وہ لوہے کا ہو یا لکڑی کا، یا تیز دھار والے پتھر کا ، یا کسی اور چیز کا بس یہ لازم ہے کہ جسم میں پیوست ہو جائے۔

دوسری شرط: شکار کو تیز دھار کی سمت سے لگے اور اسے زخم لگا دے، اور یہ یقین ہو کہ شکار کی موت اسی زخم کی وجہ سے ہوئی ہے، وگرنہ اسے کھانا حلال نہیں ہو گا؛ کیونکہ جو جانور چپٹی جانب یا دباؤ کی وجہ سے قتل ہو تو وہ موقوذہ میں شمار ہو گا، اور اللہ تعالی نے قرآن کریم میں موقوذہ کو حرام قرار دیا ہے۔ ایسا شکار اس لیے بھی حرام ہو گا کہ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بتلایا کہ: "میں معراض [لکڑی کا موٹا ڈنڈا جس کے آگے بھالا لگا ہو، یا بغیر پروں کا تیر۔ مترجم] شکار کو ماروں اور اسے مارنے میں کامیاب ہو جاؤں [تو کیا کروں؟]" اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب تم معراض شکار کی طرف چلاؤ اور وہ گوشت چھید کر اندر گھس جائے تو تم اسے کھا لو، اور اگر وہ چوڑائی کی جانب سے لگے اور اسے مار ڈالے تو پھر تم اسے نہ کھاؤ) [صحیح مسلم: 4972] اسی حدیث کے ایک اور جگہ الفاظ ہیں کہ: عدی بن حاتم نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب تم شکار کو نشانہ لگاؤ اور آلۂ شکار اس کا گوشت چھید دے تو اسے کھا لو، اور اگر گوشت نہ چھیدے تو اسے مت کھاؤ، اور معراض سے کیا ہوا شکار وہی کھاؤ جسے تم نے ذبح کیا ہے، اسی طرح غلولے سے کیا ہوا شکار بھی وہی کھاؤ جو تم ذبح کرو) [اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔] نیز کنکری کو انگلیوں میں رکھ کر پھینکنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا اور کہا: (کنکری نہ تو شکار کر سکتی ہے اور نہ ہی دشمن کو زخمی کر سکتی ہے، ہاں اس سے دانت ٹوٹ سکتا ہے اور آنکھ پھوٹ سکتی ہے۔) بخاری و مسلم "

اسی طرح "الموسوعة الفقهية" (28/ 135) میں ہے کہ { الاصطياد بالبندق } :
"عربی زبان میں "بُندق" کا لفظ بیر پر بھی بولا جاتا ہے اور غلیل کے ذریعے پھینکے جانے والے مٹی کے گول گولے پر بھی بولا جاتا ہے [جسے اردو میں گلولہ یا غلولہ ، غلیلہ بھی کہتے ہیں۔ مترجم] اس کے ذریعے شکار کرتے ہیں، یا چھرے اور گولی پر بھی یہی لفظ بولتے ہیں، اس کی جمع بنادق ہے۔

تو یہاں پر کھانے والا بیر مراد نہیں ہے بلکہ یہاں شکار کے لیے استعمال ہونے والا چھرہ یا غلیلہ مراد ہے۔

چنانچہ مٹی کے بنے ہوئے غلیلے کے بارے میں فقہائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ وزنی غلیلے کی وجہ سے جو جانور قتل ہو جائے تو اسے کھانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ جانور دباؤ کی وجہ سے مرا ہے، تیز دھار کی وجہ سے نہیں ۔۔۔
علامہ بجیرمیؒ کہتے ہیں کہ: ابن عبد السلامؒ نے غلیلے کے ذریعے شکار کرنے کو واضح لفظوں میں حرام کہا ہے، اسی بات کی صراحت " الذخائر " میں بھی ہے۔ تاہم علامہ نووی رحمہ اللہ نے غلیلے کے ذریعے شکار کرنے کو جائز کہا ہے، جبکہ بعض اسے مقید صورت میں جائز کہتے ہیں کہ اگر گلولہ لگنے سے عام طور پر شکار نہ مرے تو جائز ہے، مثلاً: لمبی گردن والی بطخ، اور اگر غلیلہ لگنے سے شکار مر جائے جیسے کہ چڑیا وغیرہ تو پھر اس سے شکار کرنا حرام ہے، لہذا اگر غلیلہ لگے اور اتنی زور سے لگے کہ ذبح ہو جائے یا گردن ٹوٹ جائے تو حرام ہو گا۔ یہی تفصیل اس مسئلے میں معتمد ہے۔۔۔
یہ ساری تفصیل مٹی کے بنے غلیلے یا غیر آتشیں گولی کے متعلق ہے۔
چنانچہ جو گولی لوہے کی بنی ہو اور آتشیں اسلحے سے اسے فائر کیا جائے تو اس کے بارے میں فقہائے کرام کا اختلاف ہے، حنفی اور شافعی فقہائے کرام اس کی بھی حرمت کے قائل ہیں ۔۔۔
تاہم مالکی فقہائے کرام میں سے علامہ دردیر رحمہ اللہ اس کے جواز کے قائل ہیں، ان کا کہنا ہے کہ: گولی کے ذریعے کیے گئے شکار کو کھایا جا سکتا ہے؛ کیونکہ گولی تیر وغیرہ سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے، بعض مالکی فقہائے کرام نے اسی کو معتبر قرار دیا ہے۔ پھر دسوقی رحمہ اللہ نے مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا: خلاصہ یہ ہے کہ گولی کے ذریعے شکار کے متعلق متقدمین کے ہاں کوئی صراحت نہیں پائی جاتی؛ کیونکہ بارود کے ذریعے فائر ایجاد ہی آٹھویں صدی ہجری کے درمیان میں ہوا ہے۔

متاخرین کا اس حوالے سے اختلاف ہے، تو کچھ اسے مٹی کے غلیلے پر قیاس کرتے ہوئے منع قرار دیتے ہیں ، جبکہ کچھ اس کے جواز کے قائل ہیں؛ کیونکہ گولی کی وجہ سے خون بھی بہ جاتا ہے اور بڑی تیزی سے روح پرواز کر جاتی ہے، انہی دونوں مقاصد کے لیے جانور کو ذبح کرنے کا شرعی حکم دیا گیا، گولی کو غلیلے پر قیاس کرنا فاسد ہے؛ کیونکہ دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے؛ کیونکہ گولی یقینی طور پر جسم کو پھاڑتے ہوئے اندر داخل ہو جاتی ہے جبکہ غلیلے میں ایسا کچھ نہیں ہے، غلیلے میں زیادہ سے زیادہ کچلنے اور توڑنے کی صلاحیت ہے۔" ختم شد

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (121239 ) کا جواب ملاحظہ کریں، یہاں پر بندوق سے شکار کو حلال قرار دیا گیا ہے۔

آتشیں اسلحے کی گولی اور ائیر گن کی گولی کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہے؛ خصوصاً ایسی صورت حال میں جب ائیر گن سے چھوٹے جانوروں اور پرندوں مثلاً: کبوتر اور خرگوش وغیرہ کا شکار کیا جائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب