جمعرات 18 جمادی ثانیہ 1446 - 19 دسمبر 2024
اردو

افطاری کا اجروثواب کسے حاصل ہوگا

سوال

ہمیں یہ توعلم ہے کہ رمضان المبارک میں افطاری کروانے کا بہت زيادہ اجروثواب ہے ، لیکن میں آپ سے مندرجہ ذیل سوال پوچھنا چاہتا ہوں :
وہ روزے دار کون ہوگا ؟ کیا اسے افطاری کرائی جائے جس کے پاس افطاری کرنے کے لیے کچھ بھی نہ ہو ، یا پھر کوئي مسافرہونا چاہیے ؟ یا کسی بھی شخص کو افطاری کروائی جاسکتی ہے چاہے وہ مالدار ہی کیوں نہ ہو؟
میرے سوال کا سبب یہ ہے کہ ہم امریکہ میں رہائش پزیرہ ہیں اوریہاں پر بسنے والے اکثر مسلمان اچھی اورآسان زندگی بسر کررہے ہیں ، اورایک دوسرے پر فخر کرنے کے لیے افطاری کرواتے ہیں ۔۔۔ ( یعنی فلاں شخص بڑی عزت وتکریم والا ہے اورفلاں عورت بڑا اچھا کھانا پکاتی ہے ۔۔۔۔ وغیرہ ) ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

روزہ دار کوافطاری کروانے کا بہت زيادہ اجروثواب حاصل ہوتا ہے ، اس کے اجرو ثواب کا ذکر کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اس طرح فرمایا:

( جوکسی کوروزہ افطار کرواتا ہے اسے بھی روزہ دار جتنا ہی ثواب حاصل ہوتا ہے ، اورروزہ دار کے اجروثواب میں کچھ بھی کمی نہیں ہوتی ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 708 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الترغیب والترھیب ( 1078 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ، آپ مزيد تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 12598 ) کے جواب کا مطالعہ کریں ۔

یہ ثواب ہر افطاری کروانے شخص کو حاصل ہوتا ہے ، جس میں یہ کوئي شرط نہیں کہ روزہ دار غریب مسکین اورفقیر ہو ، اس لیے کہ یہ افطاری کوئي صدقہ وخیرات تونہیں کہ اس کےلیے غریب ومسکین ہونا شرط ہو ، بلکہ یہ افطاری تو بطور ہدیہ ہے ، اورہدیہ میں یہ شرط نہيں کہ جسے ہدیہ دیا جارہا ہے وہ غریب ومسکین اورفقیر ہو بلکہ ہرغریب وفقیر اورمالدار کوہدیہ دینا جائز ہے ۔

اورکھانے کی وہ دعوتیں جوصرف اورصرف غرور فخر اورتکبر کرنے لیے کی جاتی ہیں وہ صحیح نہیں بلکہ ایسی دعوت مذموم ہے ، ایسی دعوت کرنے والوں کو کوئی اجر وثواب حاصل نہيں ہوگا ، بلکہ ایسا کرنے سے اس نے اپنے آپ کو خیرو بلائي سے محروم کرلیا ہے ۔

اورجس شخص کو اس قسم کی دعوت دی جائے اس کے بھی لائق نہیں کہ وہ اس طرح کی دعوتوں میں شریک ہو ، بلکہ اسے ان دعوتوں میں شریک ہونے سے معذرت کرلینی چاہیے ، لیکن اگر اس دعوت میں شریک ہوکردعوت کرنے والے شخص کو احسن اسلوب میں نصیحت کرنی ممکن ہو یہ ایک اچھا اورمستحسن اقدام ہوگا ہوسکتا ہے وہ قبول کرتے ہوئے اس کام کوآئندہ نہ کرے ۔

اسے نصیحت کرنےمیں مباشر کلام کرنے سے بچنا چاہیے اوراسے عمومی قسم کی کلام کرتےہوئے کسی خاص شخص کونشانہ نہیں بنانا چاہیے اوربات چيت کرنے میں نرم رویہ اختیار کیا جائے تا کہ قبول کرنا آسان ہو ۔

بات چیت میں نرم رویہ اوراحسن اسلوب اختیار کرنا اورسخت و ترش کلام سے اجتناب کرنا نصیحت قبولیت میں زيادہ مناسب ہوتا ہے ، مسلمان شخص اس پر حریص ہوتا ہے کہ اس کا بھائي نصیحت اورحق قبول کرتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہو ۔

جیسا کہ جب صحابہ کرام سے کچھ کمی وکوتاہی ہوجاتی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا انکار ایسے انداز میں کرتے تھے کہ کسی کومحسوس بھی نہیں ہوتا تھا آپ فرمایا کرتے تھے کہ ان لوگوں کا کیا حال ہے جوایسے ایسے کرتے ہیں ؟

کیونکہ اس اسلوب سے مطلوبہ مصلحت اورمقصد حاصل ہوجاتا ہے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب