الحمد للہ.
حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت کو مریض پر قیاس کرتے ہوئے ان کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہوگا اوراس کے بدلے میں انہیں صرف قضاء میں روزہ رکھنے ہونگے ، چاہے انہيں اپنے آپ یا پھر بچے کو ضرر کا خدشہ ہو ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( بلاشبہ اللہ تعالی نے مسافر اورمریض سے روزہ اورنماز کا ایک حصہ اٹھا دیا ہے اورحاملہ اوردودھ پلانے والی عورت سے روزہ رکھنا اٹھا دیا ہے ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 715 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1667 ) ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ترمذی ( 575 ) میں اسے اس حدیث کو صحیح قراردیا ہے ۔
دیکھیں کتاب : ( سبعون مسئلۃ فی الصیام ) روزوں کے ستر مسائل ۔
لھذا اگر حاملہ عورت کواپنے آپ یا پھر بچے کو ضرر پہنچنے کا خدشہ ہو تووہ بھی مریض کا حکم میں داخل ہونے کی بنا پر روزہ ترک کردے گی اوراس کے بدلہ میں بطور قضاء بعد میں روزے رکھے گی کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اورجوکوئي مریض ہو یا مسافر وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے البقرۃ ( 185 ) ۔
لیکن اگرروزے کی وجہ سے اسے اپنے آپ یا پھر بچے پر کسی ضرر کا خدشہ نہ ہو تو اس پر روزہ رکھنا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
تم میں سے جو بھی اس ماہ مبارک کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہیے ۔
اورغالب طورپریہ ہوتا ہے کہ حاملہ عورت کو روزہ رکھنے سےمشقت ہوتی ہے اورخاص کرحمل کے آخری مہینوں میں تو اوربھی زيادہ ہوجاتی ہے اورہوسکتا ہے روزہ رکھنا اس کے حمل پر اثرانداز بھی ہوجائے اس لیے اسے کسی ماہر ڈاکٹر کے مشورہ پر عمل کرنا چاہیے ۔
دیکھیں : الشرح الممتع ( 6 / 359 ) ۔
واللہ اعلم .