بدھ 24 جمادی ثانیہ 1446 - 25 دسمبر 2024
اردو

گھروالوں سے شادی خفیہ رکھنا اورانہیں راضی کرنے کے لیے دوبارہ شادی کرنا

3799

تاریخ اشاعت : 18-06-2004

مشاہدات : 10868

سوال

میری عمر اٹھائس برس ہے اوردس برس سے ایک لڑکی سے محبت کررہا ہوں ، میں اس محبت کا اپنے والدین سے بھی ذکر کیا اوران سے کہا کہ اس کا رشتہ میرے لیے مانگ لیں ، لیکن انہوں نے بالکل انکار کردیا کیونکہ ان کے اصول ہم سے مختلف ہیں ، میں نے تقریباآٹھ برس تک کوشش کی کہ میرے گھر والے مان جائیں لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ نہیں مانیں گے ۔
میں یہ فیصلہ نہیں کرسکا کہ اپنے گھروالوں کوراضي رکھوں یا پھر لڑکی سے شادی کرلوں ، اوربالآخر میں نے نو ماہ قبل اس لڑکی سے اس کے والدین کی موجودگي میں شادی کرلی لیکن اپنے گھروالوں کو نہیں بتایا کہ میں شادی کرچکا ہوں ، کچھ عرصہ بعد ان کے نظریات میں تبدیلی پیدا ہوئي اوراچانک وہ اس لڑکی کو پسند کرنے لگے اورانہيں علم بھی نہیں کہ میں تو اس سے شادی کرچکا ہوں اوراب وہ یہ چاہتے ہیں کہ میں اس لڑکی سے شادی کرلوں ، لیکن انہيں یہ علم نہیں کہ ہم تو عرصہ سے شادی شدہ ہیں ۔
میں انہیں اپنی شادی کے بارہ میں بتانا چاہتا اس لیےکہ میرے والد صاحب دل کے مریض ہیں مجھے علم نہيں کہ انہیں یہ خبر کیسی لگے اوروہ برداشت کرسکیں گے یا نہیں ، اب میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ اپنی شادی کو خفیہ رکھتے ہوئے دوبارہ اپنی بیوی سے شادی کرلوں ؟
آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس پر کچھ روشنی ڈالیں اللہ تعالی ہمیں صراط مستقیم کی ھدایت نصیب فرمائے ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

اسلامی طریقہ یہ ہے کہ جب میسر ہوتو نکاح کا اعلان کیا جائے – یعنی اس میں دف کا استعمال کیا جائے – تاکہ زنا سے اس کی تمیز ہوسکے کیونکہ زناہی ایک ایسا امر ہے جو غالبا خفیہ طریقہ سے ہوتا ہے ، اورجب عقد نکاح میں شروط شرعیہ اورنکاح کے ارکان پائے جائيں تو وہ نکاح صحیح ہوگا چاہے اس میں لڑکے کے گھر والے رضامند نہ بھی ہوں ۔

اورکفو کے مسئلہ میں تو صرف دین ہے جب دینی طور وہ مناسب ہے اوراللہ تعالی نے بھی اسے قرآن مجید میں بیان کیا ہے اس لیے ممکن ہے کہ مسلمان مرد کتابی عورت اورمسلمان عورت سے شادی کرلے لیکن اس میں شرط ہے کہ وہ عفت وعصمت کی مالکہ ہونی چاہیے ۔

اورمسلمان مرد کے لیے جائز نہيں کہ وہ مشرکہ اورزانیہ عورت سے شادی کرے ، بلکہ اسے دین والی تلاش کرنے کی حرص کرنی چاہیے ، اورمسلمان عورت کے لیے مسلمان مرد کے علاوہ کسی اورسے شادی کرنا جائز نہیں ، اورنہ ہی اہل کتاب کے مرد اس کے کفو میں شامل ہے بلکہ مسلمان عورت کو چاہیے کہ وہ ایک اچھے اوربہتر اخلاق کے مسلمان کو تلاش کرے ۔

سوال میں بیان کی گئي حالت میں یہ کہنا ممکن ہے کہ :

اول : جب والد خاوند سے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا مطالبہ کرے تو اسے بیوی کوطلاق دینا واجب نہیں ۔

دوم : والد کا بیٹے پر ایک عظیم حق ہے اورگھر والوں کے ساتھ احسان اورحسن سلوک کرنا واجب ہے ، جب والد دل کا مریض ہو تواوربھی زيادہ حسن سلوک کرنا چاہیے اس لیےبہتر تو یہ ہے کہ یہ شادی والد کے علم میں نہيں آنی چاہیے ، یہ بعید ہے کہ اس کا موقف بدل چکا ہو کیونکہ اس کا موقف طبقاتی نظریات پر مبنی ہے اوربڑی عمر کے لوگوں میں تبدیلی اورقناعت مشکل ہی ہوتی ہے ۔

سوم : آپ کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے گھر والوں کے آخری موقف کی تصدیق کرلیں اوراس لڑکی سے ان کی رضامندی کہاں تک ہے ، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے کسی سے یہ سن لیا ہو کہ اس لڑکی نے شادی کرلی ہے ، اوراب وہ آپ کو راضي کرنا چاہتے ہوں کیونکہ ان کے گمان میں یہ ہوکہ اس لڑکی نے آپ کے علاوہ کسی اورسے شادی کرلی ہے ۔

اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اس کی آپ سے شادی کے بارہ میں سنا ہو اوراس کا علم وہ آپ کے ذریعہ کرنا چاہتے ہوں ، جب آپ ان کے موقف کی تصدیق کرلیں تو پھر اس میں کوئي مانع نہيں کہ آپ ان سے اس لڑکی کے ساتھ شادی کرنے کی اجازت لیں اوراسی اپنے والد سے بھی اگر وہ اجازت دے دیں تو یہی آپ کی منشا ہے ، اوراگر وہ آپ کو اجازت نہ دیں تو پھر آپ اسی حالت میں رہیں جس پر پہلے ہيں تا کہ ان کے علم میں آنے سے جو کچھ خاوندانی فساد پیدا ہوگا اس سے بچے رہیں گے ۔

اورعقدنکاح دوبارہ کرنے کے بارہ میں ہم نے فضیلۃ الشيخ مفتی عبدالعزيز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ تعالی سے پوچھا تو ان کا جواب تھا :

( ہم ان کے جواب کا خلاصہ پیش کرتے ہیں )

پہلے عقد میں جب مکمل شرائط موجود ہوں اورنکاح کے موانع میں سے بھی کوئي مانع نہ پایا جائے تو وہ عقد نکاح صحیح ہے ، تو پھر عقدنکاح دوبارہ نہیں کرنا چاہیے تا کہ اسے کھیل تماشہ نہ بنایا جاسکے ، اورآپ کو چاہیے کہ آپ ہر وسیلہ اورطریقہ سے اپنے گھروالوں راضي کرنے کی کوشش کریں اورانہیں بتائيں کہ معاملہ مناسب طریقہ سے حل ہوچکا ہے ۔

اوراگر آپ کو والد کی زندگي سے حقیقی طور خدشہ ہو تو پھرضرورت کودیکھتے ہوئے عقد نکاح دوبارہ بھی ہوسکتا ہے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد