الحمد للہ.
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذيل سوال کیا گيا :
اگرکسی شخص نے ایک ملک میں انتیس روزے رکھنے کے بعد نماز عیدادا کرنے کے بعد وہ دوسرے ملک گیا تووہاں لوگ روزے سے تھے توکیا وہ بھی روزہ رکھے یا اسے نہيں رکھنا چاہیے بلکہ اپنی عید پر ہی رہے ؟
توشیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
آپ پرامساک لازم نہیں کیونکہ آپ نے شرعی طریقے سے روزہ چھوڑا ہے ، لھذا یہ دن آپ کے حق میں مباح ہے جس میں آپ پر لازم نہيں کہ آپ کھانے پینے سے رکے رہیں ۔
اگر ایک ملک میں سورج غروب ہونے کے بعد آپ دوسرے ملک سفر کرجائيں تو وہاں سورج موجود ہو توآپ پر لازم نہیں کہ آپ بھی کھانا پینا ترک کریں ۔
اورشیخ رحمہ اللہ تعالی سے یہ بھی سوال کیا گيا کہ :
اگر ہم سعودی عرب میں روزہ رکھیں اورایشا کے مشرقی ملک میں جائيں جہاں پرھجری مہینہ ایک دن دیر سے شروع ہوتا ہے توکیا ہم اکتیس روزے رکھیں ، اگرچہ انہوں نے انتیس روزے رکھے ہوں توکیا وہ افطار کریں گے کہ نہيں ؟
توشیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
جب کوئي شخص کسی ملک سے ابتدائي ایام کے روزے رکھ کے کسی ایسے ملک میں جائے جہاں پر عید الفطر میں تاخیر ہو تواسے بھی روزہ رکھنے چاہیے اوران کے ساتھ ہی افطار کرنا چاہیے ۔
اس کی مثال اسی طرح ہے کہ اگر وہ کسی ایسے ملک جائے جہاں پر سورج دیر سے غروب ہوتا ہو تو وہ اس وقت تک روزہ افطار نہیں کرسکتا جب تک کہ سورج غروب نہ ہوجائے اگرچہ روزہ بیس گھنٹے کا ہی ہوجائے ، لیکن اگر وہ سفر کی وجہ سے روزہ افطار کرلےتواس کے لیے جائز ہے ۔
اوراسی طرح اس کے برعکس اگروہ کسی ایسے ملک کی طرف سفر کرے جہاں پیس یوم پورے ہونے سے قبل ہی عید الفطر کرچکے ہوں تووہ بھی ان کے ساتھ ہی عید الفطر کرے گا ، لیکن یہ ہے کہ اگر مہینہ پورا یعنی تیس یوم کا ہو تواسے ایک یوم کی قضاء کرنا ہوگي ۔
لیکن اگر انتیس یوم کا ہو تواس پر کوئي قضاء نہیں قضاء صرف اس صورت میں ہے کہ اگر مہینہ ناقص یعنی انتیس یوم کا ہو ، اوراگر مہینہ میں ایک یوم کا اضافہ ہورہا ہو تووہ اس کا متحمل ہوگا ۔ واللہ اعلم ۔انہتی ۔
مجموع الفتاوی ( 19 ) ۔
واللہ اعلم .