اتوار 28 جمادی ثانیہ 1446 - 29 دسمبر 2024
اردو

خاوند كو خدشہ ہے كہ بيوى كى موت كا سبب وہ خود ہے

38105

تاریخ اشاعت : 04-06-2012

مشاہدات : 3455

سوال

اثنائے حمل مشكلات كے باعث ميرى بيوى فوت ہوگئى ہم اكثر فون پر ايك دوسرے سے جھگڑتے تھے، ليكن جب ولادت كا وقت قريب آيا تو ميں اپنے ملك گيا اور اس كے ساتھ ہاسپٹل ميں رہا، ہم آپس كى سارى مشكلات بھول گئے اور ميں آخرى ايام اس كے ساتھ ہاسپٹل ميں ہى بسر كيے، تقريبا پندرہ ہزار ريال اس كے علاج پر صرف كيا ليكن وہ جانبر نہ ہو سكى.
ميرا سوال يہ ہے كہ: آيا وہ اس ليے فوت ہوئى كہ ميں اس سے رابطہ نہيں كرتا تھا، اور اس نے اس معاملہ كو حقيقى طور پر ليتے ہوئے دل پر لگا ليا جس كے نتيجہ ميں وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ كا شكار ہوئى اور مر گئى ؟
ميرى ساس كہتى ہے كہ اس كى موت كا سبب ميں ہوں كيونكہ ميں بيوى كو كافى رقم نہيں بھيجتا تھا، اور اس ليے بھى كہ ميرى والدہ اسے اپنے ميكے نہيں جانے ديتى تھى، اور ميں اسے رقم بھى زيادہ نہيں ديتا تھا، برائے مہربانى ميرى مدد كريں، كيونكہ ميں گناہ كا احساس كرتا ہوں كہ كہيں اس كى موت كا سبب ميں خود نہ ہوں.

ہمارى شادى محبت كى شادى تھى، ليكن چھوٹے معاملات ميں ہمارا آپس ميں جھگڑا ہو جايا كرتا تھا، ليكن ميں نے كبھى اس كى موت كى تمنا تك نہ كى تھى.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہم دعا گو ہيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى آپ كى بيوى كو اپنى جوار رحمت ميں جگہ دے، اور اسے شہيد كا اجروثواب نصيب فرمائے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:

" اللہ كى راہ ميں شہيد ہونے والے كے علاوہ سات قسم كے افراد شہيد ہيں "

ان ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حمل يا ولادت كے باعث فوت ہونے والى عورت كا ذكر كيا ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 3111 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 1846 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

ہمارى اللہ سبحانہ و تعالى سے يہ بھى دعا ہے كہ آپ اور آپ كے سسرال والوں كو صبر جميل عطا فرمائے، اور آپ كو دنيا و آخرت ميں اس كا نعم البدل عطا كرے.

دوم:

بلاشك و شبہ زندگى اور موت اللہ سبحانہ و تعالى كے ہاتھ ميں ہے، اور ہر ايك كى موت كا وقت مقرر اور طے شدہ ہے اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اس اللہ نے موت اور زندگى كو اس ليے پيدا كيا ہے تا كہ وہ تمہيں آزمائے كہ تم ميں سے كون اچھے عمل كرتا ہے الملك ( 2 ).

اور ايك دوسرے مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:

اس اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، وہ زندہ كرتا اور مارتا ہے الاعراف ( 158 ).

چنانچہ كوئى بھى اللہ سبحانہ و تعالى كے حكم كے بغير كسى دوسرے كے ليے نہ تو نفع كا مالك ہے، اور نہ ہى نقصان كا مالك، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان تو يہ ہے كہ:

" روح القدس نے ميرے دل ميں يہ بات ڈالى ہے كہ كوئى بھى جان اس وقت تك دنيا سے نہيں نكلےگى جب تك وہ اپنا وقت پورا نہ كر لے، اور جب تك وہ اپنا رزق پورا نہ كر لے، اس ليے روزى كى طلب ميں اچھا طريقہ اختيار كرو، اور روزى ميں تاخير تمہيں اس پر مت ابھارے كہ تم اللہ كى معصيت و نافرمانى كے ساتھ روزى طلب كرنے لگو، كيونكہ اللہ كے پاس جو ہے وہ اللہ كى اطاعت كے ساتھ ہى حاصل ہو سكتا ہے "

اسے طبرانى نے ( 8 / 166 ) روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ حسن قرار ديا ہے.

سوم:

ياد ركھيں كہ شريعت اسلاميہ نے ہر چيز كے ساتھ حسن سلوك اور احسان كرنے كا حكم ديا ہے، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يقينا اللہ سبحانہ و تعالى نے ہر چيز ميں احسان فرض كيا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1955 ).

حتى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو يہ بھى بتايا كہ ايك عورت بلى كى وجہ سے جہنم ميں چلى گئى كيونكہ اس نے بلى كو باندھ ركھا تھا اور اسے كھانے كے ليے كچھ نہيں ديا، اور نہ ہى چھوڑا كہ وہ زمين كے كيڑے مكوڑے كھا كر گزارہ كر لے، بلكہ اسے باندھے ركھا حتى كہ وہ مر گئى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2365 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2242 )؟

يہ تو ايك جانور كے متعلق تھا، يہ سوچيں كہ انسان كى بيوى كے بارہ ميں كيا خيال ہوگا جو كہ اس كى دنيا و آخرت ميں ساتھى ہے، كہ شريعت اسلاميہ نے بيوى كے ساتھ حسن سلوك كرنے كا كتنا حكم ديا ہوگا ؟

اسى سلسلہ ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم عورتوں كے ساتھ حسن سلوك كا معاملہ اختيار كرو " صحيح بخارى حديث نمبر ( 3331 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1468 ).

اور سنن ترمذى ميں درج ذيل الفاظ ہيں:

" يہ عورتيں تو تمہارے پاس قيدى ہيں "

امام ترمذى كہتے ہيں: يعنى يہ عورتيں تمہارے ہاتھوں ميں قيدى ہيں.

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1163 ).

علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دينے ميں امام ترمذى كى موافقت كى اور كہا ہے كہ يہ الفاظ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم حجۃ الوداع كے موقع پر فرمائے تھے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كامل ايمان والا وہ شخص ہے جس اخلاق اچھا ہو، اور تم ميں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنى بيويوں كے ليے اخلاقى طور پر اچھا ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1162 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار ديا ہے.

چہارم:

اوپر كى سطور سے آپ كو علم ہوا كہ آپ نے اپنى بيوى سے رابطہ ميں كمى كر كے كوتاہى كا ارتكاب كيا ہے، حالانكہ وہ بيمار تھى اور اس حالت ميں تو بيوى كى مزاج پرسى كا اور بھى زيادہ خيال كيا جاتا ہے، اور پھر آپ ميں اختلافات تو چھوٹى چھوٹى چيزوں ميں تھے جيسا كہ آپ نے سوال ميں بھى بيان كيا ہے؟!

پھر آپ نے بيوى كے نفقہ اور اخراجات ميں كوتاہى كيسے كى حالانكہ كتاب و سنت اور اجماع كے دلائل سے بيوى كا نان و نفقہ تو واجب ہے، جيسا كہ المغنى ( 9 / 229 ) ميں درج ہے.

اور جب آپ كى والدہ نے اس كے خلاف آپ كو حكم ديا تو آپ كے ليے اس ميں والدہ كى اطاعت نہيں ہے، كيونكہ اللہ خالق كى معصيت ميں كسى مخلوق كى اطاعت نہيں كى جا سكتى، اور آپ كو گناہ كا احساس اپنى جگہ ہے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" نيكى حسن اخلاق كا نام ہے، اور گناہ وہ ہے جو تيرے دل ميں كھٹكے، اور تم اس پر لوگوں كو مطلع ہونے كو ناپسند كرو "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2553 ).

ليكن يہ گناہ اس حد تك نہيں جاتا كہ آپ كى بيوى كى موت كا سبب بن جائے، كيونكہ يہ سبب بالواسطہ ہے، اور عام طور پر يہ سبب براہ راست قتل نہيں كرتا، آپ نے سوال ميں يہ بھى بيان كيا ہے كہ آپ كى بيوى كى وفات حمل ميں مشكلات كے باعث ہوئى، خاص كر آپ نے آخرى ايام اپنى بيوى كے ساتھ ہاسپٹل ميں بيوى كے ساتھ رہ كر بہت اچھا كيا اور اس كے علاج معالجہ كے اخراجات بھى برداشت كيے، ان شاء اللہ يہ آپ كے ليے كفارہ بن جائيگا.

اس ليے ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اپنے اور بيوى كے ليے كثرت سے استغفار كيا كريں، اور اس كے ساتھ ساتھ بيوى كے ليے دعا كے علاوہ بيوى كى جانب سے صدقہ و خيرات بھى كريں، اور اس كے خاندان والوں كے ساتھ حسن سلوك اور ان كى عزت و اكرام كريں، اور ا نكى جانب سے بيٹى كى وفات كے باعث آپ جو بھى اذيت و تكليف ہو اس پر صبر و تحمل سے كام ليں، جو كچھ ہو چكا ہے اس ميں آپ كو مستقبل كے ليے عبرت و نصيحت ہونى چاہيے، تا كہ آئندہ دوبارہ اس طرح كا عمل نہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب