اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

بيوى روزہ نہيں ركھنا چاہتى

سوال

ميرا بھائى دين پر عمل پيرا ہے، ليكن اس كى بيوى دين پر عمل نہيں كرتى، نہ تو وہ روزہ ركھتى بلكہ اسے اصل ميں رمضان كے متعلق كچھ علم ہے ہمارا كوئى قريبى رشتہ دار ان كے قريب رہائش پذير نہيں، ميرا بھائى اپنى بيوى پر اثر انداز نہيں ہو سكتا تا كہ اسے دينى احكام پر عمل پيرا ہونے پر تيار كر سكے، وہ دعاء كرتا رہتا ہے كہ اللہ تعالى اسے ہدايت نصيب فرمائے، اور اسے ايسى بيوى كے متعلق صبر سے نوازے، ليكن ظاہر يہ ہوتا ہے كہ اس كى بيوى تبديل نہيں ہونا چاہتى اور نہ ہى مسلمانوں كى طرح دين پر عمل كرنا چاہتى ہے.
كيا آپ بتا سكتے ہيں كہ ميرا بھائى اپنى بيوى كے ساتھ كس طرح كے معاملات كرے تا كہ وہ دين اسلام كے زيادہ قريب ہو كر دينى احكام پر عمل كرنے لگے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ كے بھائى كے ليے ضرورى ہے كہ اپنى بيوى كى ہدايت اور اسے حق كى طرف لانے كے ليے ہر قسم كے وسائل بروئے كار لائے، چنانچہ اس كے ليے اسے ترغيب و ترہيب كا اسلوب استعمال كرنا چاہيے، اور بيوى كو اللہ تعالى اور اس كے حقوق كى ياد دہانى كرانى چاہيے، اور اسے يہ بتانا چاہيے كہ اس وقت وہ كس خطرناك مرحلہ ميں پہنچ چكى ہے.

پھر اسے نيك اور صالحہ عورت كے ساتھ تعلقات قائم كرانے كى كوشش كرنى چاہيے، چاہے اس كے رشتہ داروں ميں نہ بھى ہوں، تو وہ دوسرى مسلمان بہنوں سے مدد لے سكتا ہے، مثلا وہ اپنے دوست و احباب كى نيك اور صالح بيويوں سے اپنى بيوى كا ميل جول كرائے.

اور اسى طرح اچھى اور بہترين قسم كى آڈيو اور ويڈيو كيسٹ جن ميں دينى مسائل ہوں لا كر بيوى كو دے، اور دينى كتب بھى اس كے ليے ممد و معاون ہو سكتى ہيں، اگر تو وہ اس كى بات تسليم كر لے تو يہى مطلوب بھى ہے، وگرنہ اس كے ساتھ بے تعلقى كا اسلوب استعمال كرنے ميں كوئى مانع نہيں ليكن يہ اسلوب اس وقت استعمال كيا جائے جب اس طرح كى حالت ميں اس سے كوئى فائدہ ہو، كيونكہ شريعت مطہرہ نے خاوند كے حق كے ليے بيوى سے عليحدگى اور بے تعلقى كرنا مشروع كيا ہے، تو پھر اللہ تعالى كے حق كے ليے عليحدگى اور بے تعلقى تو بالاولى جائز ہوگى.

ابو امامہ باہلى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو سنا آپ فرما رہے تھے:

" ميں سويا ہوا تھا كہ ميرے پاس دو شخص آئے اور مجھے بازو سے پكڑ ايك دشوار گزار پہاڑ كے پاس لا كر كہنے لگے: اس پر چڑھو، ميں نے كہا مجھ ميں اس پڑ چڑھنے كى استطاعت نہيں، وہ دونوں كہنے لگے: ہم تيرے ليے اسے آسان كردينگے، چنانچہ ميں اس پر چڑھا اور جب پہاڑ كے اوپر پہنچا تو مجھے شديد اور سخت قسم كى آوازيں سنائى ديں، ميں نے سوال كيا يہ آوازيں كيسى ہيں؟

تو انہوں نے كہا: يہ جہنميوں كى آہ وبكا ہے، پھر وہ مجھے ليكر آگے چل ديے تو ميں كچھ لوگوں كے پاس پہنچا جو الٹے لٹكائے ہوئے تھے، اور ان كى باچھيں پھٹى ہوئى تھيں ان سے خون بہہ رہا تھا، ميں نے دريافت كيا يہ كون لوگ ہيں ؟ تو وہ كہنے لگے: يہ وہ لوگ ہيں جو حلال ہونے سے قبل ہى روزہ افطار كر ليتے تھے "

سنن بيہقى حديث نمبر ( 7796 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

چنانچہ اگر افطارى كا وقت ہونے سے قبل ہى روزہ افطار كرنے والوں كى سزا يہ ہے تو پھر جو بالكل ہى روزہ نہ ركھے اس كى سزا كيا ہو گى ؟

ليكن اگر يہ بيوى روزہ نہ ركھنے ساتھ ساتھ بالكل نماز بھى ادا نہيں كرتى تو پھر اس عمل كى بنا پر وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو چكى ہے، اہل علم كا راجح قول يہ ہے، اس ليے آپ كے بھائى كے ليے اس عورت كے ساتھ باقى رہنا جائز نہيں.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 12828 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب