الحمد للہ.
ہمیں ایسی کوئی حدیث نہیں ملی جو کمر کے پیچھے ہاتھ اس طرح رکھنے سے منع کرتی ہو کہ ایک ہاتھ نے دوسرے کو پکڑا ہوا ہو۔
کچھ معاصر اہل علم سے ایسی ہی کچھ صورتوں کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے ان سے منع کر دیا، اور اس کے لیے دلیل یہ دی کہ یہ کافروں کا انداز ہے، اور یہ طریقہ کار وہیں سے آیا ہے، اور کافروں کی مشابہت کرنے کی ممانعت ہے۔
ہمیں منع کرنے والے ان اہل علم کی دلیل کا بھی علم نہیں ہے، نہ ہی اس کی کوئی صحیح وجہ ہمارے علم میں ہے۔ ویسے سوال میں مذکور چلنے کا انداز پوری دنیا کے لوگوں میں مروج ہے، اس طریقے کو کسی خاص علاقے یا گروہ کے ساتھ مختص نہیں کر سکتے۔
جب معاملہ ایسا ہی ہے تو عادات کے متعلق جب تک اس کے حرام ہونے کی دلیل پیش نہ کی جائے تو وہ اپنے اصلی حکم یعنی اباحت پر ہو گی، اس لیے بغیر دلیل کے اس سے روکا نہیں جائے گا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عادات میں اصل حکم جواز ہے، اس لیے صرف کسی ایسی عادت سے ہی روکا جائے گا جو شریعت میں حرام ہو، وگرنہ ہم اللہ تعالی کے فرمان: قُلْ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ رِزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِنْهُ حَرَامًا وَحَلَالًا [ترجمہ: کہہ دیجیے! تم سب بتلاؤ کہ :اللہ تعالی نے تمہارے لیے جو کچھ رزق نازل کیا ہے ، تم نے من مانی کرتے ہوئے اس میں کچھ کو حلال اور کچھ کو حرام قرار دے دیا ہے۔] میں شامل ہو جائیں گے۔ اسی لیے تو اللہ تعالی نے ایسے مشرکین کی مذمت کی ہے جو دین میں ایسی باتیں شامل کرتے ہیں جن کی اللہ تعالی نے اجازت ہی نہیں دی، اور ایسی چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے حرام قرار نہیں دیا۔۔۔ یہ اصول بہت ہی عظیم الشان اور نہایت مفید ہے۔ " ختم شد
"مجموع الفتاوى" (29/ 16–18)
آپ رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:
"سابقہ اہل علم میں سے کسی کا مجھے اس حوالے سے کوئی اختلافی تبصرہ معلوم نہیں ہے کہ: جس چیز کی حرمت کی دلیل شریعت میں نہیں ہے وہ مباح ہے، منع نہیں ہے۔ اس حوالے سے اصول فقہ اور فروعِ فقہ پر گفتگو کرنے والے بہت سے اہل علم نے صراحت کے ساتھ بات کی ہے، بلکہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ کچھ نے تو اس بات پر یقینی طور پر یا ایسے ظنی طور پر کہ وہ یقینی ہی ہو؛ اجماع نقل کیا ہے" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (21/538)
اس لیے بنیادی طور پر اصول یہ ہے کہ: اس انداز سے چلنا جائز ہے، کیونکہ کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس میں اس انداز کو حرام قرار دیا گیا ہو۔
واللہ اعلم