الحمد للہ.
1 - غير مسلم فقراء و مساكين كو نفلى صدقہ و خيرات دينا جائز ہے اور خاص كر جب وہ قريبى عزيز اور رشتہ دار ہوں ليكن شرط يہ ہے كہ وہ ہمارے خلاف جنگ كرنے والوں ميں شامل نہ ہوں، اور ان ميں سے كسى نے ايسى زيادتى نہ كى جس كى بنا پر ان كے ساتھ احسان كرنا ممنوع ٹھرے، اور فرضى زكاۃ و خيرات انہيں دينا جائز نہيں ہے.
كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
جن لوگوں نے تم سے دين كے بارہ ميں لڑائى نہيں لڑى اور تمہيں جلاوطن نہيں كيا ان كے ساتھ حسن سلوك كرنے، اور منصفانہ برتاؤ كرنے سے اللہ تعالى تمہيں نہيں روكتا، بلكہ اللہ تعالى تو انصاف كرنے والوں سے محبت كرتا ہے.
اللہ تعالى تمہيں صرف ان لوگوں سے محبت كرنے سے روكتا ہے جنہوں نے تم سے دين كے بارہ ميں لڑائى لڑى اور تمہيں جلاوطن كيا، اور جلاوطن كرنے والوں كى مدد كى، جو لوگ ايسے كفار سے محبت كريں وہ قطعا ظالم ہيں الممتحنۃ ( 8 - 9 ).
اور اسماء بنت ابى بكر رضى اللہ تعالى عنہا كى مندرجہ ذيل حديث كى بنا پر وہ بيان كرتى ہيں كہ:
" ميرى والدہ اپنے والد كے ساتھ ميرے پاس آئى جو كہ مشرك تھى ـ اس معاہدے كى مدت كے دوران جب نبى كريم صلى اللہ عليہ و سلم نے قريش كے ساتھ معاہدہ كيا تھا ـ تو ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرے پاس ميرى والدہ رغبت ركھتے ہوئے ـ مدد طلب كرنے ـ آئى ہے، تو كيا ميں اس كے ساتھ صلہ رحمى كروں؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ہاں اس سے صلہ رحمى كرو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2946 ).
اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ايك يہودى عورت نے ان سے مانگا تو انہوں نے اسے دے ديا، تو وہ يہودى عورت كہنے لگى: اللہ تعالى آپ كو عذاب قبر سے محفوظ ركھے، تو عائشہ رضى اللہ تعالى نے اسے عجيب سمجھا، جب انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ديكھا تو انہيں كہا: تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: نہيں.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كہتى ہيں: پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے بعد ہميں فرمايا: ان كى طرف وحى آئى ہے كہ تم اپنى قبروں ميں آزمائش اور فتنہ ميں ڈالے جاؤ گے"
مسند احمد حديث نمبر ( 24815 ).
تو يہ دونوں حديثيں كافر كو صدقہ دينے كے جواز پر دلالت كرتى ہيں.
اور كفار فقراء كو زكاۃ دينى جائز نہيں ہے، كيونكہ زكاۃ صرف انہيں دى جاسكتى ہے جو آيت مصاريف زكاۃ ميں فقراء و مساكين وغيرہ ذكر ہوئے ہيں.
امام شافعى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
نفلى صدقہ و خيرات ميں سے مشرك كو دينے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن فرضى زكاۃ و صدقہ وغيرہ ميں اس كا كوئى حق نہيں، اور اللہ تعالى نے ايسے لوگوں كى تعريف بيان كرتے ہوئے فرمايا ہے:
اور وہ كھانا كھلاتے ہيں الآيۃ
ديكھيں: كتاب الام للشافعى جلد ( 2 ).
اور مسلمان فقراء و مساكين كو صدقہ و خيرات دينا افضل اور بہتر ہے؛ كيونكہ انہيں صدقہ دينے ميں اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى ميں ان كى معاونت ہے، اور ان كے دينى اور دنياوى امور ميں ان كى معاونت ہو گى، اور پھر اس ميں مسلمانوں كے مابين آپس ميں ترابط و تعلقات بھى پيدا ہوتے ہيں، اور خاص كر آج كے دور ميں تو مسلمان فقراء مالداروں سے زيادہ تعداد ميں ہيں، اللہ تعالى ہى مدد كرنے والا ہے.
2 - اگر مال مانگنے سوال كرنے والا شخص مسلمان ہو، اور وہ محتاج ہے اور آپ اس كى محتاجگى كا يقين بھى كر چكے ہيں تو پھر جو كچھ صدقہ و خيرات سے آپ كے پاس ميسر ہو اسے دے ديں، اور اسى طرح اگر غير مسلم بھى ہو.
ليكن مسلمان محتاجوں كے ليے افضل اور بہتر تو يہى ہے كہ وہ راستوں اور چوراہوں پر سوال كرنے سے اجتناب كريں ـ اور اگر اس كے بغير كوئى چارہ نہ ہو ـ تو پھر انہيں اسلامى خيراتى تنظيموں كے دفاتر ميں جانا چاہيے تو فقراء و محتاج لوگوں ميں صدقہ و خيرات تقسيم كرنے كا كام كرتى ہيں، اور اسى طرح مستحقين تك صدقہ و خيرات پہنچانے كے ليے لوگوں كو با اعتماد خيراتى تنظيموں كى مدد و معاونت كرنى چاہيے.
3 - ليكن اگر مال كا سوال كرنے والا شخص ـ چاہے وہ مسلمان ہو يا كافر ـ كسى حرام كام يا حرام چيز كى خريدارى كے ليے مال مانگ رہا ہے، يا وہ اس مال كو كسى حرام فعل ميں صرف كرے گا تو اسے يہ صدقہ و خيرات دينا جائز نہيں ہے، كيونكہ ايسا كرنے ميں حرام فعل كے ارتكاب ميں اس كى معاونت و مدد ہو گى.
اور اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور تم نيكى و بھلائى اور تقوى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو، اور برائى معصيت اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو .
واللہ اعلم .