الحمد للہ.
جب آپ خاوند کے حقوق کوصحیح طور پرادا کریں اوراسے ضائع نہ کرتی ہوں تو پھر آپ کا تلاوت قرآن میں کوئي حرج نہیں اوراسی طرح دوسری اطاعت والے کام بھی کثرت سے کرنے میں کوئي حرج والی بات نہیں ، لیکن خاوند کے حقوق میں کمی نہ ہو اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( کسی بھی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خاوند کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر روزہ رکھے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5195 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1026 ) ۔اس حدیث میں نفلی روزے کا ذکر ہے ۔
یہ اس لیے کہ خاوند کا حق استمتاع فرض ہے جسے کسی بھی نفلی کام سے ختم کرنا جائز نہیں ۔
لھذا ایک نیک اورصالحہ بیوی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ خاوند کی بات تسلیم کرے اوراس کے پاس بیٹھنے کی رغبت پوری کرے لیکن ٹیلی ویژن دیکھنے میں نہیں ، اور اسے یہ علم ہونا چاہیے کہ خاوند کی رضا میں ہی اس کی سعادت ہے جس میں اسے اجرعظیم ملے گا ۔
لھذا آپ صحیح کام کریں اور قرب حاصل کریں اورعبادت کے لیے وہ اوقات اختیار کریں جواس کے مشغول ہونے یا پھر گھر سے باہر جانے کے اوقات ہوں ۔
اورٹیلی ویژن کا مشاہدہ کرنا یہ توبہت ہی برا کام ہے جو کہ شرہے ، اس سے بچنا بہت ضروری ہے اس لیے کہ اس میں بہت سے فتنے اورشھوات وشبھات پاۓ جاتے ہیں ، اورپھر اس میں بہت سی منکرات و برائيوں کوترویج بھی ملتی ہے ، مثلا مرد وعورت کا اختلاط ، اوربے پردگی ، موسیقی کا استعمال ، اوراسی طرح گانے بجانے کے آلات وغیرہ ۔
اورٹیلی ویژن میں جوقلیل سی خير ہے وہ اس بڑے شر اوربرائي میں ڈوبی ہوئي ہے جس کا پتہ بھی نہیں چلتا ، اوربہت سے لوگ جنہوں نے اس کا تجربہ بھی کیا ہے انہوں نے اس کی تصریح کی ہے کہ اس کی برائيوں سے بچنا بہت ہی محال اورپہنچ سے بھی دور ہے ۔
بلکہ یہ تووہم کی ایک قسم ہے ، جبکہ اس میں دینی پروگرام بھی ( اوریہی اس میں کچھ خير کا پہلو ہے ) شروع اورآخر میں موسیقی سے خالی نہیں ہوتے ، یا پھر اس کی اناؤنسمنٹ اوراعلان کرنے والی وہ عورتیں ہوتی ہیں جوبے پردہ اوراپنے جسم کی نمائش کرتی پھرتی اوراپنی طرف دوسروں کومائل کرنے والی اوردوسروں کی طرف مائل ہونے والی ہوتی ہیں ، توجب دینی پروگراموں کا یہ حال ہے توپھر دوسرے پروگراموں میں کیا کچھ ہوگا ؟ واللہ المستعان ۔
آپ کے خاوند پر ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرے اوراس سے ڈرے اوراپنے اہل وعیال اوربچوں کو ان منکرات کے مشاہدہ سے روکے ، کیونکہ وہ گھرمیں حاکم ہے اوراس اسے اس کی رعایا کے بارہ میں باز پرس ہوگي ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :
اے ایمان والوں ! اپنے آپ اوراپنے گھروالوں اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اورپتھر ہیں ، اس پر سخت قسم کے فرشتے مقرر ہيں جو اللہ تعالی کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے ، اوروہ وہی کام کرتے ہیں جس چيز کا انہیں حکم دیا جاتا ہے التحریم ( 6 ) ۔
اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کچھ اس طرح فرمایا ہے :
( تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اورہر ایک سے اس کی رعایا کے بارہ میں سوال ہوگا ، امام حاکم ہے اسے اس کی رعایا کے بارہ میں سوال ہوگا ، اورمرد اپنے گھروالوں کا حاکم ہے اسے اس کی رعایا کے بارہ میں پوچھا جاۓ گا ، اور عورت اپنے خاوند کے گھرمیں نگہبانی کرنے والی ہے اسے اس کی رعایا کے بارہ میں پوچھا جاۓ گا ۔۔۔۔ ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 893 ) صحیح مسلم حديث نمبر ( 1829 ) ۔
اگرآپ کا خاوند ان حرام اشیاء جن کا ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے کے سننے اورمشاھدہ کرنے کی دعوت دے توآپ کے لیے اس میں اس کی اطاعت کرنا جائز نہیں اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اللہ تعالی کی معصیت ونافرمانی میں اطاعت نہیں بلکہ اطاعت تو نیکی اوربھلائی میں ہے ) صحیح بخاری حديث نمبر ( 7257 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1840 ) ۔
آپ اسے نصیحت کرنے میں نرمی سے کام لیں، اور اللہ تعالی سے یہ دعا کرتی رہیں کہ اللہ تعالی اس کے دل کی اصلاح کرے اوراسے رشدو ھدایت کی طرف پلٹائے ۔
واللہ اعلم .