جمعہ 24 شوال 1445 - 3 مئی 2024
اردو

گھر میں ایسے گھریلو جانور پالنے کا حکم جن کی بو سے پڑوسیوں کو تکلیف ہو

سوال

ہم بکری اور مرغی جیسے گھریلو جانور گھر میں پال لیتے ہیں، ہم نے گھر کے ایک کونے میں ان کے رہنے کی جگہ بنائی ہوئی ہے، بکریوں کے فضلے کی بو ختم کرنے کے لیے ہفتہ وار ان کی جگہ کو دھوتے بھی ہیں، کبھی دو ہفتے کا وقفہ بھی آ جاتا ہے، ہم اس جگہ کو ہفتہ وار بھی دھوئیں تو جگہ پھر بھی بد بو دار ہی رہتی ہے، اور پڑوسیوں کو ان کی بو اچھی نہیں لگتی، جس کی وجہ سے ہم نے ساری مرغیاں تو ذبح کر دیں لیکن بکریاں ختم نہیں کیں؛ کیونکہ بکریوں کو گھر میں چوری سے بچانے کے لیے رات کے وقت ہی رکھتے ہیں ۔ یہاں سوال یہ ہے کہ: کیا یہ بھی پڑوسیوں کو تکلیف دینے کے زمرے میں آتا ہے؟ حالانکہ ہم بکریاں گھر میں صرف رات کے وقت رکھتے ہیں وہ بھی چوری سے بچانے کے لیے اور ان کی جگہ کو ہفتے ، دو ہفتے میں دھوتے بھی ہیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر بکریوں اور مرغیوں وغیرہ کی بو سے پڑوسیوں کو تکلیف ہوتی ہو تو اس تکلیف کو دور کرنا ضروری ہے، اس کے لیے انہیں رہائشی کالونی سے باہر پالا جائے یا ان جانوروں کو ختم کر دیا جائے؛ کیونکہ دلائل سے ثابت ہے کہ پڑوسی کو اذیت دینا حرام ہے۔

جیسے کہ ابو شریح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ کی قسم ! اس وقت تک وہ شخص مومن نہیں ، اللہ کی قسم ! اس وقت تک وہ شخص مومن نہیں ، اللہ کی قسم ! اس وقت تک وہ شخص مومن نہیں ۔ کہا گیا: کون شخص مومن نہیں؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔) صحیح بخاری: (6016)

اسی طرح صحیح مسلم : (46) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کی اذیت سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو)

ان احادیث کا تقاضا یہ ہے کہ پڑوسی کو تکلیف دینا کبیرہ گناہ ہے۔

ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ "الزواجر عن اقتراف الكبائر" (1/422) میں لکھتے ہیں:
"کبیرہ گناہ نمبر: 210، پڑوسی کو تکلیف پہنچانا چاہے پڑوسی غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔" ختم شد

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جبریل مجھے پڑوسی کے بارے میں اتنی دیر تک وصیت کرتا رہا کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ وہ اسے وارث بھی بنا دے گا۔) اس حدیث کو امام بخاری: (6105) اور مسلم : (2624) نے روایت کیا ہے۔

فقہائے کرام نے بھی صراحت کے ساتھ اسے منع قرار دیا ہے۔

جیسے کہ "درر الحكام شرح مجلة الأحكام" (3/216) میں عنوان ہے کہ: "بہت زیادہ ضرر کسی بھی صورت میں ہو اسے زائل کیا جائے گا" اس کے تحت ذکر کیا کہ:
"پانچواں مسئلہ: اگر کوئی شخص کسی مسجد کے قریب سلاٹر ہاؤس یا مذبح خانہ بنائے اور نمازیوں کو ذبح شدہ جانوروں اور ان کے فضلے کی بو سے اذیت پہنچے ، اور قاضی کو اس کے بارے میں بتلایا جائے تو اسے ختم کروائے۔ (علی افندی)

چھٹا مسئلہ: اگر کوئی شخص تسلسل کے ساتھ گھر میں رنگائی کا کام کر رہا ہے اور پڑوسیوں کو اس سے تکلیف ہوتی ہے تو اسے روکا جائے گا، لیکن اگر رنگائی کا کام کبھی کبھار کرتے تو پھر منع نہیں کیا جائے گا۔ (الدر المختار)" ختم شد

اسی طرح "المعيار" از :ونشریسی(8/ 412) میں ہے کہ:
"ابو حفص العطاء سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو گھر میں سرکہ تیار کرتا ہے، تو اسے پڑوسیوں نے کہا: سرکے کی بو سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے اور دیواریں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ تو یہ شخص کیا کرے؟

انہوں نے جواب دیا: اگر طبی ماہرین یہ کہیں کہ سرکے کی بو تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اور ماہرین تعمیرات کے مطابق : سرکے کی وجہ سے دیواروں کو نقصان ہوتا ہے، تو اس شخص کو گھر میں سرکہ بنانے سے روک دیا جائے گا۔ الا کہ پڑوسیوں کی دیوار کو سرکے سے محفوظ کرنے کے لیے اپنی دیوار بھی کھڑی کر لے تو پھر اسے سرکہ بنانے سے روکا نہیں جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی ذکر کیا کہ: الشیخ ابو بکر بن عبد الرحمن نے بھی پڑوسیوں کو تکلیف اور دیواروں کو نقصان کی وجہ سے منع کا فتوی دیا ہے۔" ختم شد

اس بنا پر: آپ نے مرغیوں کو ذبح کر دیا ہے یہ بہت اچھا کیا۔

جبکہ بکریوں کے بارے میں یہ ہے کہ اگر صرف رات کے وقت انہیں اس گھر میں رکھنے کی وجہ سے پڑوسیوں کو بو آتی ہے تو تب ان بکریوں کو بھی آپ ختم کر دیں، یا انہیں رہائشی کالونی سے دور کسی جگہ پر پالیں۔

اگر گھریلو جانور جنہیں گھر میں پالا جا سکتا ہے، انہیں گھروں میں پالنا آپ کے علاقے میں لوگوں کی عادت ہے، تو پھر یہاں لوگوں کے عمومی رواج والے جانور پالنے میں نرمی ہو گی ، ایسے جانور پالنے کے متعلق نرمی نہیں ہو گی جنہیں گھروں میں پالنے کا رواج آپ کے ہاں نہیں ہے، اسی طرح کاروباری نقطہ نگاہ سے پالنے میں بھی نرمی نہیں ہو گی۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب