اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

كرفيو كى بنا پر مغرب اور عشاء كى نماز جمع كرنا

39176

تاریخ اشاعت : 27-05-2006

مشاہدات : 6912

سوال

ہم عراق ميں رہتے ہيں ہمارے شہر ميں رات دس بجے كرفيو شروع ہو جاتا ہے، اور ہمارى مسجد كا امام فقھى مسائل ميں كم علم ہے اس نے مغرب اور عشاء كى نماز جمع كرنا شروع كر دى ہے، چنانچہ وہ مغرب كى تين ركعت ادا كركے عشاء كى چار ركعت پڑھا كر نمازيں جمع كرتا ہے، اور پھر اس كے بعد عشاء كے وقت عشاء كى اذان ديتا ہے.
كيا اس كا ايسا كرنا كتاب و سنت كے مطابق ہے يا نہيں ؟
اور شرعى طور پر صلاۃ خوف كا طريقہ كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جى ہاں آپ كى حالت ايسى ہے جس ميں مغرب اور عشاء كى نمازيں جمع كرنى جائز ہيں، سنت نبويہ سے ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بارش كى وجہ سے نمازيں جمع كي تھيں:

امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے سعيد بن جبير رحمہ اللہ سے روايت كيا ہے كہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء كى نمازيں مدينہ ميں بغير كسى خوف اور بارش جمع كيں "

راوى كہتے ہيں: ميں نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے عرض كيا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كيوں كيا ؟

تو انہوں نے جواب ديا: تا كہ اپنى امت كو حرج اور تنگى ميں نہ ڈاليں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 705 ).

چنانچہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے خوف اور بارش كى نفى كى جو كہ اس بات كى دليل ہے كہ يہ دونوں نمازيں جمع كرنے كے سبب ميں سے ہيں.

شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" سخت سردى اور كيچڑ كى حالت ميں بارش اور آندھى كى وجہ سے مغرب اور عشاء كى نمازيں جمع كرنى جائز ہيں، علماء كرام كے اقوال ميں سے صحيح يہى ہے، اور امام احمد اور امام مالك وغيرہ كا ظاہرى مذہب بھى يہى ہے " انتہى

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

" علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق اندھيرى رات ميں شديد كيچڑ اور آندھى وغيرہ كى بنا پر نمازيں جمع كرنا جائز ہيں، چاہے بارش نہ بھى ہو، ايسا كرنا گھروں ميں نماز ادا كرنے سے زيادہ بہتر ہے، بلكہ جمع نہ كرنا اور گھروں ميں جا كر نماز ادا كرنا بدعت اور سنت كے مخالف ہے.

جبكہ سنت يہ ہے كہ نماز پنجگانہ مسجد ميں باجماعت ادا كى جائيں، اس پر مسلمانوں كا اتفاق ہے كہ ايسا كرنا گھروں ميں نماز ادا كرنے سے اولى اور بہتر ہے، اور نمازيں جمع كرنے كو جائز قرار دينے والے آئمہ كرام مثلا امام مالك امام شافعى اور امام احمد كے ہاں مساجد ميں نمازيں جمع كر كے باجماعت ادائيگى گھروں ميں عليحدہ عليحدہ نماز ادا كرنے سے اولى اور بہتر ہے "

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 24 / 30 ).

اور بلاشك و شبہ آپ كى يہ حالت بارش كے باعث جمع كرنے سے زيادہ اولى اور بہتر ہے.

دوم:

نمازيں جمع كرنا تو ان كے ليے ہے جو جماعت كے اہل ہيں، ليكن مريض يا عورت جو اپنے گھر ميں ہى نماز ادا كرے اس كے ليے جمع كرنا جائز نہيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى " الشرح الممتع " ميں لكھتے ہيں:

" اگر كسى بيمارى كى بنا پر وہ مسجد ميں نہيں آتا اور گھر ميں ہى نماز ادا كرے تو اس كے ليے نمازيں جمع كرنا جائز نہيں، كيونكہ وہ اس سے كچھ بھى فائدہ حاصل نہيں كرے گا، يا پھر عورت ہو تو بارش كى بنا پر اس كے ليے جمع كرنا جائز نہيں ہے، كيونكہ وہ جمع كرنے سے مستفيد نہيں ہو گى، كيونكہ وہ اہل جماعت ميں سے نہيں " انتھى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 288 ).

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 31172 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

سوم:

اور اس كے بعد عشاء كے وقت اذان دينے ميں كوئى حرج نہيں، تا كہ گھروں ميں نماز ادا كرنے والے مثلا عورتيں اور مريض وغيرہ كو عشاء كى نماز كا وقت ہو جانے كا علم ہو سكے.

چہارم:

مغرب اور عشاء كى نمازيں جمع كرنے كى بنا پر آپ كا اپنے امام كو فقھى مسائل ميں كم علم كہنا واضح غلطى ہے، اس كے بعد كہ آپ كو مندرجہ بالا دلائل سے معلوم ہو چكا ہے كہ اس كا يہ فعل صحيح ہے.

آپ كو ايسا كرنے ميں جلدى بازى سے كام نہيں لينا چاہيے، اور كسى شخص كو كسى چيز اس وقت تك نہ روكيں اور منع نہ كريں جب تك كہ آپ كو يہ علم نہ ہو جائے كہ اس كا عمل اور فعل غلط اور منكر ہے، اور بغير كسى دليل كے اپنے بھائى كو جاہل مت كہيں.

پنجم:

نماز خوف كے طريقہ كے متعلق عرض ہے كہ خوف كے حسب حال كہ آيا دشمن قبلہ كى جانب ہے يا نہيں اس كى كئى صورتيں ہيں، اس كى تفصيل كا سوال نمبر ( 36896 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب