جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

ٹيلى ويژن ، ويڈيو اور پلائى اسٹيشن فروخت كرنے كا حكم

39744

تاریخ اشاعت : 12-04-2005

مشاہدات : 10094

سوال

ميرى اليكٹرك آلات كى دوكان ہے، لہذا كيا ميں ٹيلى ويژن اور ويڈيو اور ( پلائى اسٹيشن ) وغيرہ كے آلات اور اس كے متعلقہ آلات فروخت كر سكتا ہوں، يہ علم ميں رہے كہ مجھے علم نہيں كہ يہ آلات كس غرض كے ليے استعمال كيے جائيں گے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ٹيلى ويژن اور ويڈيو وغيرہ جيسے آلات ان ميں شامل ہوتے ہيں جو خير وبھلائى اور شر اور اطاعت اور فرمانبردارى اور معصيت دونوں كے ليے استعمال ہوتے ہيں، ليكن آج انہيں زيادہ تر شر و معاصى اور بے پردہ اور ننگى عورتيں ديكھنے، اور لہو لعب اور موسيقى جيسى باطل اشياء سننے كے ليے استعمال كيا جارہا ہے، اس طرح كے عمل ميں انسان كو اسى پر عمل كرنا چاہيے جو اس كے ظن غالب ميں ہو.

لہذا ان آلات كى فروخت جائز نہيں سوائے ايسے شخص كے جسے يہ علم ہو يا پھر اس كا ظن غالب ہو كہ يہ آلات مباح اور حلال كام ميں استعمال ہونگے تو وہ فروخت كر سكتا ہے.

ليكن جس شخص كو علم ہو يا اس كے ظن غالب ميں ہو كہ يہ آلات حرام كام ميں استعمال ہونگے تو انہيں فروخت كرنا جائز نہيں.

كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور تم نيكى اور بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو، اور برائى و گناہ اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو المائدۃ ( 2 ).

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے كہ:

" ہر وہ چيز جو حرام كام ميں استعمال كى جائے يا پھر ظن غالب يہ ہو كہ يہ حرام ميں استعمال ہو گى، تو پھر اس چيز كو تيار كرنا اور باہر سے منگوانا اور اس كى فروخت اور مسلمانوں كے مابين اس كى ترويج كرنا حرام ہے. اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميہ والافتاء ( 13 / 109 ).

اور مستقل فتوى كيمٹى سے مندرجہ ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ميں اليكٹرك انجينئرنگ كا كام كرتا ہوں، اور ميرا كام ريڈيو اور ٹيلى ويژن اور ويڈيو وغيرہ كى مرمت كرنا ہے، لہذا ميرى گزارش ہے كہ آپ مجھے يہ كام جارى ركھنے كے بارہ ميں فتوى ديں كہ آيا ميں يہ كام كرتا رہوں، يہ علم ميں ركھيں كہ اس كام كو ترك كرنے سے ميرا سارا تجربہ اور محنت جاتى رہے گى جو ميں نے سارى زندگى كى، اور اس كے ترك كرنے سے ہو سكتا ہے مجھے نقصان بھى پہنچے.

كميٹى كا جواب تھا:

كتاب و سنت كے شرعى دلائل اس پر دلالت كرتے ہيں كہ مسلمان شخص كے ليے اچھى اور حلال كمائى كرنا واجب اور ضرورى ہے، لہذا آپ كو چاہيے كہ كوئى ايسا كام تلاش كريں جس كى كمائى اچھى اور پاكيزہ ہو، جس عمل كا ذكر آپ نے كيا ہے اس كى كمائى اچھى اور پاكيزہ نہيں؛ كيونكہ يہ آلات غالبا حرام كاموں كے ليے ہى استعمال كيے جاتے ہيں. اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 14 / 420 ).

اور رہا مسئلہ ( پلائى اسٹيشن ) اور اس كى ڈسكوں كا تو اس كا حكم بھى وہى حكم ہے جو اوپر بيان ہوا ہے، لہذا اس شخص كے ليے فروخت كرنا جائز ہے جس كے متعلق ظن غالب يہ ہو كہ انہيں حلال اور مباح كام ميں استعمال كرے گا، اور اس شخص كے ليے فروخت كرنا حرام ہے جس كے بارہ ظن غالب يہ ہو كہ وہ اسے حرام كام ميں استعمال كرے گا.

آج اكثر لوگ اسے حرام كام كے ليے ہى استعمال كرتے ہيں، چاہيے تو يہ تھا كہ دل بہلانا اور آسودگى وخوشى ايك عارضى چيز ہوتى اور اسے ضرورى كے وقت كيا جاتا، ليكن اب يہ تو بہت سے لوگوں كے ہاں اور بينادى چيز بن چكى ہے، جس ميں بہت سارے لوگ تو اپنى عمر اور مال اور خرچ كرتے ہيں اور ايك كھيل سے دوسرے كھيل ميں اپنى توانائى و كوشش صرف كرتے رہتے ہيں، اور كلبوں اور سوئمنگ پولوں ميں جاتے اور سفر سياحت اور دوستوں كے ساتھ بيٹھے رہتے ہيں اور پاركوں كا رخ كرتے ہيں .... وغيرہ وغيرہ الخ.

اور بہت سے لوگ تو پلائى سٹيشن وغيرہ يا اس طرح كے دوسرى گيموں كو استعمال كرتے ہيں جس كے سبب سے نمازيں ضائع ہوتى اور بہت سارى دينى اور دنياوى مصلحتوں سے بھى انسان مشغول ہو جاتا ہے اور انہيں نہيں كر سكتا، جو ہميں بالجزم حرمت كى طرف لاتى ہيں كہ اس طرح كے لوگوں پر يہ حرام ہيں.

ليكن جو شخص معاملات كى اس طرح قدر كرتا ہے جس طرح قدر كا حق ہے اور ان گيموں كے ساتھ تھوڑا بہت كھيلتا ہے تا كہ اس كا دل بہل جائے، اور اس كے سبب سے كوئى بھى واجب كردہ چيز ضائع نہيں ہوتى اور دينى اور دنياوى مصلحتيں بھى پورى ہوتى ہيں، اور اس كے ساتھ ساتھ يہ گيميں اور كھيل ننگى عورتوں اور موسيقى وغيرہ دوسرى برائيوں سے خالى اور پاك صاف ہوں تو ان شاء اللہ اس ميں كوئى حرج نہيں.

اور مسلمان شخص كے شايان شان اور اس كے لائق تو يہى ہے كہ وہ ايسى پاكيزہ اور حلال كمائى كرے جس ميں كسى بھى قسم كا كوئى شبہ نہ اور اسے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ياد ركھنا چاہيے:

" ہر وہ جسم جو حرام پر پلا اور بنا ہو اس كے ليے آگ زيادہ بہتر ہے"

اسے طبرانى ميں روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 4519 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب