الحمد للہ.
ترقياتى بنك كى ادائيگى كرنے سے راہ فرار اختيار نہيں كرنا چاہيے، كيونكہ اس ميں خيانت اور عام مال پر ظلم و زيادتى ہے.
اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
بلاشبہ اللہ تعالى تمہيں تاكيدى حكم ديتا ہے كہ امانت والوں كى امانتيں انہيں پہنچاؤ! اور جب لوگوں ميں فيصلہ كرو تو عدل و انصاف كے ساتھ فيصلہ كرو! يقينا وہ چيز بہت بہتر ہے جس كى نصيحت تمہيں اللہ تعالى كر رہا ہے، بلا شبہ اللہ تعالى سنتا ہے، اور ديكھتا ہے النساء ( 58 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" مسلمان اپنى شرطوں پر قائم رہتے ہيں"
جامع ترمذى حديث نمبر ( 1352 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3594 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ بھى فرمايا:
" اما بعد: بلا شبہ ميں تم ميں سے كسى آدمى كو اس كام پر لگاتا ہوں جو اللہ تعالى نے ميرے ذمہ لگايا ہے، تو وہ شخص آكر كہتا ہے: يہ تو تمہارا مال ہے اور يہ مجھے تحفہ اور ہديہ ديا گيا ہے، وہ اپنى ماں اور باپ كے گھر ميں ہى كيوں نہيں بيٹھا رہتا حتى كہ اس كے پاس اس كا ہديہ آجائے، اور اللہ تعالى كى قسم تم ميں سے جو شخص بھى كوئى چيز ناحق حاصل كرے گا تو وہ روز قيامت اللہ تعالى كو ملے گا اور اس نے وہ چيز اٹھا ركھى ہو گى، ميں تم ميں سے ايك كو جان لوں گا كہ وہ روزقيامت اللہ تعالى سے ملے گا تو اس نے اونٹ اٹھا ركھا ہو گا جو آواز نكال رہا ہو گا، يا گائے اٹھا ركھى ہو گى اور وہ آواز نكال رہى ہو گى، يا بكرى اٹھا ركھى ہو گى اور وہ مميا رہى ہو گى، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا ہاتھ بلند كيا حتى كہ بغل كى سفيدى نظر آنے لگى، اور فرمايا: اے اللہ كيا ميں نے پہنچا ديا"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6578 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1832 )
اور مسلمانوں كا بيت المال تو سب مسلمانوں كى ملكيت ہے، نہ كہ لوگوں ميں سے كسى خاص گروہ كا، اور بيت المال كے ذمہ داران تو صرف اس كى حفاظت اور مال كے حصول اور اسے صرف كرنے كے ذمہ دار ہيں، لھذا كسى بھى شخص كے ليے اس پر زيادتى كرنا يا اس ميں سے وہ مال لينا جس كا وہ مستحق نہيں ہے حلال نہيں .
اور اگر فرض كريں كہ كچھ لوگ خيانت اور بيت المال كے مال ميں زيادتى كرتے ہيں، تو يہ اس عظيم گناہ ميں شركت كرنے كو مباح نہيں كرديتا ، اور اگر بيت المال سے مال لينے كى دليل كے ساتھ حكومت كا مال چھيننا اور چورى كرنا جائز كر ديا جائے تو پھر شر اور فساد عام ہو جائے، اور ظلم و زيادتى اور بغاوت عام ہو جائے.
لھذا عام مال ميں خيانت كرنے سے اجتناب كرنا اور بچنا چاہيے، كيونكہ يہ سب مسلمانوں پر ظلم و زيادتى ہے.
اور اس كا يہ كہنا كہ: حكومت بيت المال سے اس كا حق ادا نہيں كرتى، تو اگر يہ ثابت بھى ہو جائے تو پھر بھى اس كے ليے بنك كے ساتھ كيے گئے معاہدے كو توڑنا جائز نہيں ہوتا، كيونكہ اس نے معاہدہ پر دستخط كر ركھے ہيں، اور اس ليے بھى كہ معاہدہ توڑنا خيانت ميں شمار ہوتا ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو! عہد وپيمان كو پورا كرو.
اور ايك دوسرے مقام پر اللہ تعالى كا فرمان ہے:
بلاشبہ اللہ تعالى خيانت كرنے والوں سے محبت نہيں كرتا.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو ايسے شخص كى خيانت كرنے سے بھى منع فرمايا ہے جو آپ كے ساتھ خيانت كرے، تو پھر ايسے شخص كى خيانت كرنا جس نے آپ كے ساتھ خيانت نہيں كى كسے ہو گى؟ !
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے آپ كے پاس امانت ركھى ہے اس كى امانت اسے واپس كرو، اور جس نے تمہارى خيانت كى اس كے ساتھ تم خيانت نہ كرو"
جامع ترمذى حديث نمبر ( 1264 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3534 ) اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے السلسلۃ الصحيحۃ حديث نمبر ( 423 ) ميں اس حديث كو حسن صحيح كہا ہے.
واللہ اعلم .