جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

عورت نے عمرہ کا احرام باندھا لیکن بعد میں عمرہ نہ کرنےکی نیت کرلی تواس پرکیا واجب ہوگا؟

40512

تاریخ اشاعت : 13-03-2011

مشاہدات : 18555

سوال

میں طائف میں تھی اورکچھ ایام مکہ گزارنے کا فیصلہ کیا لھذا مقررہ دن میں نے عمرہ کا احرام باندھنے کا سوچا اورفعلا غسل کرکے تلبیہ بھی کہا ( لبيك اللهم بعمرة لبيك اللهم لبيك ) اورپھرسفر کرنے سے قبل مجھے ایک ضرورت پیش آئي جس کی بنا پرمیں نے عمرہ کرنے کاارادہ ملتوی کردیا ۔
اوراس لیے کہ میں عورت ہوں اوراحرام کے وقت میری حالت کوئي زيادہ تبدیل نہیں ہوئي اس وجہ سے میں یہ بھول گئي کہ میں نے توتلبیہ بھی کہہ لیا تھا لھذا میں مکہ گئي اورعمرہ نہ کیا اوروہاں کچھ ایام بسرکرنے کے بعدایک دن کےلیے طائف واپس آگئي اوروہاں سے عمرے کا احرام باندھا اورمکہ جاکرعمرہ ادا کیا ۔
( لیکن مجھے یہ یادہی نہیں رہا کہ میں توپہلی بارعمرہ کا تلبیہ کہہ چکی تھی بلکہ جب میں دوسری بارمیقات پرعمرہ کا احرام باندھنے لگی تومجھے یاد آيا کہ پہلے بھی میں نے عمرہ کا تبلیہ کہا تھا ) تواس بارہ میں مجھ پرکیا لازم آتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

جوکوئي بھی حج یاعمرہ کا احرام باندھ لے اورتلبیہ کہہ لے اس پروہ حج اورعمرہ مکمل کرنا واجب ہوجاتا ہے چاہے وہ حج اورعمرہ نفلی ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اوراللہ تعالی کے لیے حج اورعمرہ مکمل کرو ۔

اورجس نے بھی احرام کی نیت کرلی اوربغیرکسی شرعی عذر کے حج یا عمرہ مکمل نہ کیا وہ ایک ممنوعہ کام کا مرتکب ہوا ہے ۔

مستقل فتوی کمیٹی ( اللجنۃ الدائمۃ ) کے علماء کا کہنا ہے :

جب کسی نے احرام کی چادریں پہن لیں لیکن حج یا عمرہ کی نیت نہيں کی اورتلبیہ نہيں کہا اسے اختیارہے چاہے تووہ حج یا عمرہ کی نیت کرلے اوراگر چاہے تواسے منسوخ کردے ، اوراگروہ فریضہ حج یا فرضی عمرہ ادا کرچکا ہے تواس پرکوئي حرج نہیں ، لیکن اگراس نے حج یا عمرہ کی نیت کرلی اورتلبیہ کہہ لیا ہوتوپھر اسے فسخ کرنے کا حق نہیں رہتا بلکہ اس نے جس چيزکا بھی احرام باندھا ہے اسے شرعی طریقہ پرمکمل کرنا واجب ہوگا ۔

کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اوراللہ تعالی کے لیے حج اورعمرہ مکمل کرو ۔

اوراس طرح آپ کے لیے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ :

جب مسلمان شخص نیت کرکے حج یا عمرہ کے احرام میں داخل ہوجائے تواسے ختم کرنے کا حق نہيں بلکہ جس چيز کوشروع کرچکا ہے اسےمندرجہ بالا آیت کی بناپرمکمل کرنا واجب ہے ، لیکن اگراس نے احرام باندھتے وقت شرط لگائی ہواوراسے کوئي مانع پیش آجائے جس کا اسے خدشہ تھا توپھروہ احرام سے حلال ہوسکتا ہے ۔

کیونکہ جب ضبا‏عۃ بنت زبیررضي اللہ تعالی عنہ نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ اے اللہ تعالی کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حج کرنا چاہتی ہوں لیکن بیمارہوں تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا :

تم حج کا احرام باندھ لو اوریہ شرط رکھو کہ جہاں میں روک دی جاؤں وہیں میرے حلال ہونے کی جگہ ہے ۔ اسے امام بخاری اورمسلم نے روایت کیا ہے ۔

دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 11 / 166 - 167 ) ۔

تواس بنا پرآپ نے جوعمرہ ادا کیا ہےوہ اس عمرہ کے بدلے میں ہوگا جس کا احرام آپ نے پہلی بارباندھا تھا ۔

اورآپ نے جوکچھ ان ایام میں احرام کے ممنوعہ کام کیے ہیں وہ معاف ہیں کیونکہ ظاہر یہ ہوتا ہےکہ آپ کویہ علم نہيں کہ عمرہ کی نیت کرنے کے بعد اسے فسخ کرنا حرام ہے ۔

اورسوال نمبر ( 36522 ) کے جواب میں یہ بیان ہوچکا ہے کہ جس نے بھی جہالت کی بنا پریا بھول کراحرام کے ممنوعہ کام میں سے کوئي عمل کرلیا تواس کے ذمہ کچھ بھی لازم نہيں آتا ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے ایسی عورت کے بارہ میں سوال کیا گيا جس نے عمرہ کا احرام باندھا اورپھر اسے فسخ کردیا اورکچھ ایام بعد دوسرا عمرہ ادا کیا توکیا اس کا یہ عمل صحیح ہے ؟ اوراس نے جواحرام کے ممنوعہ کام کیے اس کا کیا حکم ہوگا ؟

توشيخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

اس کا یہ عمل صحیح نہیں ، کیونکہ جب انسان عمرہ یا حج میں داخل ہوجائے تواس پرکسی شرعی سبب کے بغیر فسخ کرنا حرام ہے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اورتم اللہ تعالی کے لیے حج اورعمرہ مکمل کرو ، اوراگرتم روک دیے جاؤ توجوقربانی میسرہوفدیہ دو ۔

تواس عورت پرلازم ہے کہ وہ اپنے کیےپراللہ تعالی سے توبہ واستغفارکرے ، اوراس کا عمرہ صحیح ہے اگرچہ اس نے عمرہ فسخ کردیا تھا لیکن عمرہ فسخ نہيں ہوتا ، بلکہ یہ حج کے خصائص میں سے ہے ، اورحج کے عجیب وغریب خصائص ہیں جوکسی دوسری چيز میں نہيں پائےجاتے ، لھذا جب حج کوباطل اورترک کرنے کی نیت کریں تووہ باطل نہيں ہوتا ، لیکن جب آپ دوسری عبادات کوچھوڑنے کی نیت کریں تووہ باطل ہوجاتی ہيں ۔

لھذا اگرکوئي روزے دار شخص روزہ چھوڑنے کی نیت کرتا ہے تواس کاروزہ باطل ہوجاتا ہے ، اوراگرکوئي شخص وضوء کے درمیان وضوء باطل کرنے کی نیت کرتا ہے تواس کا وضوء باطل ہوجائے گا ۔

اوراگرکوئي عمرہ ادا کرنے والا شخص عمرہ کی نیت کرنے کے بعد عمرہ باطل کرنے کی نیت کرتا ہےتووہ باطل نہيں ہوتا ، یا پھرکوئي شخص حج شروع کرنے کے بعد حج کوباطل کرنے کی نیت کرلے تواس کا حج باطل نہيں ہوگا ۔

اسی لیے علماء کرام کا کہنا ہے کہ : نسک ( حج اورعمرہ ) چھوڑنے سے نہيں چھوٹتا ۔

تواس بنا پرہم یہ کہيں گے کہ : اس عورت نے جب احرام کی نیت کرلی تھی توعمرہ مکمل کرنے تک یہ احرام کی حالت میں ہی تھی ، اوراس کا نیت کوفسخ کرنا مؤثرنہيں ہوگا ، بلکہ وہ اپنی نیت پرہی باقی رہے گی ۔

اورجواب کا خلاصہ یہ ہے کہ :

عورت کے بارہ میں ہم یہ کہيں گے : اس کا عمرہ صحیح ہے ، اوراسے چاہیے کہ وہ آئندہ احرام کوچھوڑنے والا کام دوبارہ نہ کرے ، کیونکہ اگر اس نے احرام کوچھوڑا تووہ اس سےخلاصی نہيں پاسکے گی ۔

اوراس نے جواحرام کے ممنوعہ کام کا ارتکاب کیا ہے مثلا ہم فرض کرتے ہیں کہ اس کے خاوند نے اس سے مجامعت کرلی توحج یا عمرہ میں جماع کرنا سب سے بڑی ممنوعہ چيز ہے ، اوراس عورت کے ذمہ کچھ لازم نہيں آئے گا کیونکہ وہ اس سے جاھل تھی ، اورجہالت کی بنا پریا بھول کریا جس پرجبرکیا گيا ہو اس کا کسی ممنوعہ چيز کا ارتکاب کرنے والے شخص پرکچھ لازم نہيں آتا ۔

دیکھیں : مجموع فتاوی ابن عثیمین ( 21 / 351 ) اختصار کےساتھ نقل کیا گيا ہے ۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب