الحمد للہ.
اگر تو حج فرضى ہے اور خاوند اسے حج كرنے سے منع كرتا ہے تو عورت كرے، چاہے خاوند اجازت نہ بھى دے، اور اس كے خاوند كو كوئى حج نہيں كہ وہ بيوى كو فرضى حج كرنے سے منع كرے، ليكن اگر نفلى حج ہے تو بيوى خاوند كى اجازت كے بغير حج نہ كرے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى " المغنى " ميں كہتے ہيں:
" مرد كو كوئى حق نہيں كہ وہ بيوى كو فرضى حج كرنے سے منع كرے، نخعى، اور اسحاق، اور ابوثور، اور اصحاب الرائے كا بھى يہى كہنا ہے، اور امام شافعى رحمہ اللہ تعالى كے اقوال ميں سے صحيح بھى يہى ہے، كيونكہ يہ فرض ہے لہذا خاوند كو اس سے منع كرنے كا حق حاصل نہيں، جيسا كہ رمضان المبارك كے روزے، اور نماز پنجگانہ.
اور اس ميں مستحب يہ ہے كہ خاوند سے اجازت لى جائے، امام احمد رحمہ اللہ تعالى نے يہى بيان كيا ہے، اگر وہ اجازت ديتا ہے تو بہتر وگرنہ اس كى اجازت كے بغير ہى چلى جائے، ليكن اگر اس كا حج نفلى ہے تو خاوند كو منع كرنے كا حق حاصل ہے.
ابن منذر رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے:
اہل علم ميں سے جس سے بھى نے علم حاصل كيا ہے ان سب كا اجماع ہے كہ نفلى حج ميں بيوى كو خاوند منع كرنے كا حق ركھتا ہے، يہ اس ليے كہ خاوند كا حق واجب ہے، لہذا كسى غير واجب چيز كى بنا پر واجب ترك نہيں كيا جا سكتا" انتہى مختصرا
ديكھيں: المغنى لابن قدامہ ( 5 / 35 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
اگر خاوند اپنى بيوى كو حج كرنے سے روكتا ہے تو كيا وہ گنہگار ہو گا ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" جى ہاں وہ گنہگار ہو گا جب وہ بيوى كو ايسے حج سے منع كرتا ہے جس كى شروط مكمل ہو چكى ہوں، تو وہ گنہگار ہے، يعنى اگر بيوى كہتى ہے:
يہ محرم ہے، اور ميرا بھائى ہے جو ميرے ساتھ حج كرے گا، اورميرے پاس حج كا خرچ بھى ہے، ميں تجھ سے ايك پيسے كا بھى مطالبہ نہيں كرتى، اور عورت نے فرضى حج بھى ادا نہ كيا ہو تو خاوند پر واجب ہے كہ بيوى كو حج كى اجازت دے، اور اگر وہ ايسا نہيں كرتا تو بيوى كو حج كرنا ہو گا، چاہے خاوند اجازت نہ بھى دے، ليكن اگر اسے ڈر ہو كہ خاوند اسے طلاق دے دے گا تو اس وقت بيوى معذور ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 21 / 115 ).
واللہ اعلم .