سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

بہنوئى كے سامنے چہرہ ننگا كرنا

40618

تاریخ اشاعت : 31-12-2007

مشاہدات : 11593

سوال

ميرا بہنوئى بعض اوقات ہمارے گھر ميں رات بسر كرتا ہے، اور بعض اوقات سارا دن بھى گھر ميں رہتا ہے، اور ميں اس كے سامنے چہرہ نہيں ڈھانپ سكتى، تو كيا ميں اس عمل كى بنا پر گنہگار ہوں، اور اس كا حل كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ كا بہنوئى آپ كے ليے اجنبى مرد ہے، اور آپ پر اس سے چہرہ كا پردہ كرنا واجب ہے، اور اسى طرح اس سے خلوت كرنا بھى جائز نہيں، اسى طرح آپ كے بہنوئى كے ليے بھى آپ كى جانب ديكھنا، اور آپ كے ساتھ خلوت و تنہائى اختيار كرنا حرام ہے.

افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے كہ لوگ گھروں ميں خاوند اور بيوى كے رشتہ دار مردوں كے متعلق تساہل اور كوتاہى سے كام ليتے ہيں، حالانكہ شريعت مطہرہ نے تو ان كے متعلق دوسروں سے زيادہ سختى كى ہے، كيونكہ گھروں ميں ان كا آپس ميں ميل جول اور اختلاط ہوتا ہے، اور گھر والے ان پر بھروسہ كرتے ہيں.

عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم عورتوں كے پاس جانے سے اجتناب كيا كرو "

تو ايك انصارى شخص نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ذرا خاوند كے رشتہ دار مرد ( ديور ) كے متعلق تو بتائيں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ديور تو موت ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4934 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2172 ).

الحمو: خاوند كے قريبى رشتہ دار مرد كو كہا جاتا ہے.

آپ يہ ديكھ رہى ہيں كہ صحابى رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے خاوند كے قريبى رشتہ دار مرد كو اس حكم سے استثنى كروانا چاہا، تو اس كے متعلق بہت زيادہ تشديد اور سختى آئى، كيونكہ خاوند كے بھائى يعنى ديور وغيرہ كا گھرميں داخل ہونا معيوب نہيں سمجھا جاتا.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمانا كہ:

" ديور تو موت ہے "

اس كا معنى يہ ہے كہ اس سے خطرہ اور خوف دوسرے شخص سے بھى زيادہ ہے، اور اس سے برائى متوقع ہے، اور فتنہ و خرابى زيادہ ہے كيونكہ اس كا بغير كسى روك ٹوك اور ممانعت كے عورت تك پہنچنا اور اس سے خلوت كرنا ممكن ہے، بخلاف اجنبى شخص كے اس كا ايسا كرنا ممكن نہيں.

يہاں الحمو سے مراد خاوند كے قريبى رشتہ دار مرد ہيں جن ميں خاوند كا باپ اور خاوند كى اولاد شامل نہيں، خاوند كے والد اور اس كے بيٹے بيوى كے محرم ہيں، اور ان سے خلوت جائز ہے، انہيں موت كا وصف نہيں جاتا.

تو يہاں اس سے مراد خاوند كا بھائى يعنى ديور اور چچا زاد بھائى اور بھتيجا، اور چچا ہے، اسى طرح دوسرے مرد جو عورت كے محرم نہيں، عام لوگوں كى عادت ہے كہ وہ اس ميں كوتاہى اور تساہل سے كام ليتے ہيں.

چنانچہ ديور بھابھى كے ساتھ خلوت كرتا ہے، تو يہى موت ہے، اور كسى دوسرے اجنبى سے زيادہ ديور كو منع كرنا زيادہ اولى ہے، جو ہم بيان كر چكے ہيں، جو ميں بيان كيا ہے اس حديث كى شرح ميں صحيح بھى يہى ہے ....

ابن الاعرابى كہتے ہيں:

" يہ كلمہ عرب كى كلام ميں بالكل اسى طرح كہا جاتا ہے جس طرح يہ كہا جائے كہ شير موت ہے، يعنى شير سے ملنا ايسے ہى ہے جيسے موت "

اور قاضى كہتے ہيں:

اس كا معنى ديور اور خاوند كے رشتہ دار مردوں كے ساتھ خلوت كرنا ہے جو فتہ اور دين كى تباہى كى طرف لے جانے كا باعث ہو، تو اسے موت كى ہلاكت كى طرح ہى قرار ديا ہے، تو يہ كلام بطور سختى اور غلظہ كے وارد ہے "

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 14 / 154 ).

اس ليے ہم سائلہ اور ہر ايك كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرے، اور غير محرم اور اجنبى مردوں سے مكمل شرعى پردہ كرنے كى كوشش كرے، اور حرص ركھے، اسى ميں اس كى خير و بھلائى ہے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 13728 ) اور ( 6408 ) اور ( 13261 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں كيونكہ يہ بہت ہى زيادہ ہميت كے حامل ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب