الحمد للہ.
جى ہاں اس مال ميں ہر سال زكاۃ ادا كرنى واجب ہے، كيونكہ نقدى ميں دو شرطوں كے ساتھ زكاۃ واجب ہوتى ہے:
پہلى شرط:
رقم نصاب كو پہنچتى ہو.
دوسرى شرط:
اس پر سال مكمل ہو جائے.
لہذا جب يہ دونوں شرطيں پورى ہو جائيں تو نقدى ميں زكاۃ واجب ہوتى ہے، اس كى مقدار دس كا چوتھائى يعنى اڑھائى فيصد ہے.
مستقل فتوى كميٹى سے سوال كيا گيا:
ايك شخص كے پاس نقد رقم ہے، اور اس پر سال مكمل ہو چكا ہے، ليكن اس نے يہ رقم شادى كے ليے جمع كر ركھى ہے، تو كيا اس پر زكاۃ ہو گى؟
كميٹى كا جواب تھا:
" اس ميں زكاۃ واجب ہے، كيونكہ يہ زكاۃ كے وجوب كے عمومى دلائل ميں شامل ہے، اور اس كا شادى كے ليے جمع كرنا زكاۃ كے وجوب كو ساقط نہيں كريگا" اھـ
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 269 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص نے گھر تعمير كرنے كے ليے كچھ رقم جمع كى اور اس پر سال مكمل ہو گيا تو كيا اس پر زكاۃ ہو گى ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" جى ہاں اس ميں زكاۃ ہے، كيونكہ پيسوں اور دراہم ميں زكاۃ ہے چاہے وہ كسى بھى كام كے ليے ہوں، حتى كہ اگر انسان نے اگر اپنى شادى كے ليے رقم جمع كى ہو، يا پھر كسى انسان نے اپنا گھر خريدنے كے ليے جمع كيے ہوں، يا وہ اس رقم سے اپنا نان و نفقہ خريدنا چاہتا ہو، لہذا جب رقم ہو اور اس پر سال مكمل ہو جائے اور وہ نصاب تك پہنچتى ہو تو اس ميں زكاۃ ہے" اھـ
ديكھيں: فتاوى الزكاۃ ( 174 ).
واللہ اعلم .