سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

فضائى چينل گھر ميں داخل كرنے كا حكم

42458

تاریخ اشاعت : 17-11-2007

مشاہدات : 4854

سوال

گھر ميں ڈش لگانے كے متعلق ميرے اور بيوى كے مابين اختلاف پيدا ہو گيا ہے كيونكہ وہ فضائى چينل كا مشاہدہ كرنا چاہتى ہے، اور مجھے خدشہ ہے كہ كہيں يہ حرام نہ، اس ليے آپ كى رائے كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جو شخص سنتا، يا پڑھتا، يا ديكھتا ہے كہ ان فضائى چينلوں ميں آج كل كيا پيش كيا جا رہا ہے، اسے گھر ميں ڈش لگانے كى حرمت كے متعلق كوئى تردد اور شك نہيں رہتا، كيونكہ ڈش كا دين اور اخلاق پر بہت برا اثر پڑتا ہے، اور خاص كر جب گھر ميں بچے ہوں، اور دينى عمل اور اللہ تعالى كے تقوى كى كمى ہو.

اس كے عوض ميں اسلامى چينل مثلا المجد گھر ميں لگانا ممكن ہے، ليكن دوسرے بےہودہ قسم كے چينلوں كا حكم واضح ہے، يہ كسى پر بھى مخفى نہيں، اور نہ ہى كوئى اخفاء ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے ايك خطبہ جمعہ ديتے ہوئے اس ڈش كے متعلق بہت سختى سے اجتناب كرنے كا كہا، شيخ رحمہ اللہ كا كہنا تھا:

" ہم دو جمعہ قبل اس ڈش كے متعلق بات كى تھى، اور انسان كى زندگى اور اس كى موت كے بعد انسان كو اس سے كيا خطرات لاحق ہو سكتے وہ بھى بيان كيے تھے، تو بہت سارے لوگوں نے اس پر تعجب كيا كہ اس كى اتنى سخت وعيد كيسے ہو سكتى ہے.

ليكن ہم يہاں كچھ سوال پوچھنا چاہينگے جن كے جوابات سے ا سكا حكم واضح ہو جائيگا.

ہم نبى كر يم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان كے متعلق پوچھتے ہيں:

" اللہ تعالى نے جس بندے كو بھى كسى رعايا كا نگران بنايا، اور وہ اپنى رعايا كى خيانت كرتا ہوا مرا تو اللہ تعالى اس پر جنت حرام كر ديتا ہے "

كيا يہ حديث صحيح ہے ؟

جى ہاں، يہ حديث صحيح ہے، اور صحيح بخارى اور صحيح مسلم وغيرہ ميں موجود ہے.

دوم:

كيا انسان اپنے اہل و عيال كا نگران ہے ؟

جواب:

جى ہاں، وہ اپنے اہل و عيال كا نگران ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مرد اپنے اہل و عيال كا نگران ہے، اور وہ اپنى رعايا كے بارہ ميں جوابدہ ہے "

اور اسى طرح اللہ تعالى كے درج ذيل فرمان سے بھى يہى ثابت ہوتا ہے:

فرمان بارى تعالى ہے:

اے ايمان والو اپنے آپ اور اپنے اہل و عيال كو جہنم كى آگ سے بچاؤ جس كا ايندھن لوگ اور پتھر ہيں .

تيسرا سوال:

كيا جو شخص اپنے گھر ڈش لگاتا ہے، اور اسميں جو حرام اور برائياں ہيں، اور غير اخلاقى حركات ہيں وہ ديكھتا ہے، كيا يہ شخص اپنى رعايا كى خيانت كر رہا ہے، يا كہ ان كى خير خواہى كر رہا ہے ؟

جواب:

ميرا يہ اعتقاد ہے كہ ہم سب كا جواب يہى ہوگا كہ وہ شخص اپنى رعايا كا خير خواہ نہيں، بلكہ خيانت كر رہا ہے، كيونكہ يہ درج ذيل فرمان بارى تعالى كے منافى ہے:

فرمان بارى تعالى ہے:

اے ايمان والو! اپنے آپ اور اپنے اہل و عيال كو جہنم كى آگ سے بچاؤ .

كيونكہ اس طرح كے امور كا مشاہدہ كرنا جن كے متعلق ہم سنتے ہيں، يہ اخلاق بگڑنے كا باعث ہيں، اور جب اخلاق بگڑ جائيں، اور غير اخلاقى حركات ہونے لگيں، تو دين اور عقيدہ بھى خراب ہو جاتا ہے، اس ليے كہ امتوں كے اخلاق ہى باقى رہتے ہيں.

اور جب ايسا ہى ہے تو جب وہ شخص مرے اور اس كے گھر ميں ڈش لگى ہوئى ہو تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان كے مطابق وہ اپنى رعايا كى خيانت كرتے ہوئے مرا، جو اللہ تعالى نے اس كے ماتحت كى تھى.

تو پھر اس سے نكلنے كى ايك ہى راہ ہے كہ وہ اپنے گھر سے اس ڈش كو مكمل طور پر نكال باہر كرے، اور ہم پچھلے خطبہ ميں يہ بيان كر چكے ہيں كہ ڈش فروخت كرنى جائز نہيں، كيونكہ جب وہ فروخت كى جائيگى تو يہ پھر اللہ كى نافرمانى ميں استعمال كى جائيگى، تو اس طرح يہ اللہ كى معصيت و نافرمانى ميں معاونت ہوگى.

اور اس وقت پھر بندے كے ليے اس سے برى الذمہ ہونے كے ليے بہتر يہى ہے كہ وہ ڈش كو توڑ دے، اللہ تعالى اسے ا س كا نعم البدل عطا فرمائيگا، كيا آپ ديكھتے نہيں كہ اللہ كے نبى داود عليہ السلام كے سامنے شام كے وقت تيز رو خاصے گھوڑے پيش كيے گئے، تو وہ انہيں ديكھ كر اللہ كے ذكر سے غافل ہوگئے، حتى كہ سورج غروب ہو گيا، چنانچہ انہوں نے انہيں واپس بلايا اور ا نكى گردنوں اور ٹانگوں پر مارنے لگے، يہ اس ليے كيا كہ اس نے انہيں اللہ كے ذكر سے دور كر ديا تھا، تو انہوں نے اس خوف سے انہيں ضائع كر ديا كہ كہيں وہ دوبارہ انہيں اللہ كے ذكر سے غافل نہ كر ديں.

پھر يہ بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ايك اچھى قسم كى چادر ہديہ ميں دى گئى تو آپ نے اسے زيب تن كيا، اور نماز كے دوران ايك بار اس كى جانب ديكھا، اور جب سلام پھيرا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

" ميرى يہ چادر ابو جہم كے پاس لے جاؤ، اور مجھے انجبانيۃ قسم كى چادر لا كر دو "

كيونكہ ابو جہم نے انہيں بطور ہديہ دى تھى، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے واپس نہيں كيا كہ كہيں ا سكا دل ہى نہ ٹوٹ جائے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےاس كى علت بيان كرتے ہوئے فرمايا:

" اس نے مجھے ميرى نماز سے غافل كر ديا تھا "

تو يہ اس كى دليل ہے كہ اگر انسان اپنے مال ميں سے كوئى ايسى چيز ديكھے جو اسے اللہ كے ذكر سے دور كر رہى ہے، يا پھر وہ اسے اللہ كى نافرمانى كى طرف لےجائيگى، تو اس كے ليے بہتر يہى ہے كہ وہ چيز اپنے سے دور كردے، وہ اس طرح كہ اسے اپنى ملكيت سے مكمل طور پر باہر نكال دے.

ميں پھر اس بات كى طرف آ كر كہتا ہوں كہ:

بعض لوگوں نے ڈش كے متعلق ميرى سابقہ كلام سے يہ سمجھا ہے كہ جو شخص فوت ہوا اور اس كے گھر ميں ڈش ہوئى تو وہ جہنمى ہے، ليكن يہ سمجھ غلط ہے صحيح نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو صرف يہ فرمايا ہے:

" اللہ تعالى نے اس پر جنت حرام كر دى ہے"

اور يہ وعيد كى ان نصوص ميں شامل ہوتى ہے جو كسى بھى انسان كو معصيت كرنے پر كتاب و سنت ميں سنائى گئى ہے، تو اگر اس كے دل ميں ايمان ہو گا تو وہ ابدى جہنمى نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

يقينا اللہ تعالى اپنے ساتھ شرك كرنے كو نہيں بخشتا، اور اس كے علاوہ جسے چاہے بخش ديتا ہے "

مجھے بہت خوشى ہوئى ہے كہ كچھ لوگوں نے پچھلا خطبہ جمعہ سنا اور اللہ تعالى نے انہيں توفيق بخشى اور انہوں گھر جا كر ڈش توڑ دى حتى كہ اسے بالكل ہى ضائع كر ديا، يہ شخص اپنے دل ميں اس كى لذت محسوس كريگا، كيونكہ يہ چيز كامل ايمان ميں سے ہے، اور جب ايك عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى تو اس كے ہاتھ ميں دو سونے كے موٹے كنگن تھے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے كہا:

" كيا تم اس كى زكاۃ ادا كرتى ہو ؟

تو اس نے جواب نفى ميں ديا، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

كيا تجھے يہ اچھا لگتا ہے كہ اللہ تعالى تمہيں اس كے بدلے آگ كے دو كنگن پہنائے ؟

چنانچہ اس عورت نے وہ كنگن اتار كر پھينك ديےاور كہنے لگى: يہ دونوں اللہ اوراس كے رسول كے ليے "

اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك شخص كے ہاتھ ميں سونے كى انگوٹھى ديكھى تو فرمايا:

" تم ميں كوئى ايك آگ كا انگارہ اٹھا كر اپنے ہاتھ ميں ركھ ليتا ہے، يا فرمايا: اپنى انگلى ميں ڈال ليتا ہے، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وہ انگھوٹى پكڑ كر پھينك دى "

جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم وہاں سے چلے گئے تو اس شخص كو كہا گيا اپنى انگوٹھى پكڑ كراس سے فائدہ اٹھاؤ، تو وہ كہنے لگا: اللہ كى قسم ميں اس انگوٹھى كو ہاتھ بھى نہيں لگاؤنگا جسے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے پھينكا ہے.

ميرے بھائيو! ذرا غور تو كريں كہ صحابہ كرام رضى اللہ عنہم كا كيا حال تھا، اور وہ كس طرح اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے منع كردہ كام كو چھوڑنے ميں جلدى كرتے تھے؟

اسى ليے تو وہ امت ميں كامل ايمان كے مالك تھے، اور سب سے بہتر دور والے، جيسا كہ اس كے متعلق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان بھى ہے:

سب سے بہتر دور ميرا ہے، اور پھر ان كے بعد والے، اور پھر ان كے بعد والے "

ميں پھر تكرار كے ساتھ كہتا ہوں كہ جو شخص يہ آلہ اپنے گھر ميں لاتا ہے اس كے ضائع ہونے كا خدشہ ہے كہ وہ اخلاق تباہ كرنےوالى چيز اپنے گھر لے آيا ہے، اور ايسى چيز كو كر رہا ہے جو مسلمان شخص كے شايان شان اور لائق نہيں.

ميں كہتا ہوں: اس عقل كا كمال يعنى كامل عقل ہونا يہى ہے كہ وہ اس ڈش كو توڑ كر ضائع كر دے، تا كہ ا س كا گھر ان حرام كاموں سے بچ سكے، حتى كہ جب وہ مرے تو اپنے اہل و عيال كى خير خواہى اور نصيحت كرنے والا ہو.

اللہ تعالى مجھے اور آپ كو امانت كى ادائيگى كى توفيق نصيب فرمائے، اے اللہ ہميں امانت ادا كرنے كى توفيق عطا فرما، اور وہ كام كرنے كى توفيق دے جس سے تو راضى ہوتا ہے، اے رب العالمين.

اے اللہ ہمارى اصلاح فرما، اور ہمارے ليے بھى اصلاح فرما، اور ہمارے ساتھ اصلاح فرما، اے رب العالمين. انتہى.

ماخوذ از: شيخ ابن عثيمين كى ويب سائٹ:

http://www.ibnothaimeen.com/all/khotab/article_139.shtml

اس آلہ يعنى ڈش كے حكم اور اس كے خطرات كے بيان كے ليے اتنى ہى كلام كافى ہے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ مسلمانوں كو ظاہرى اور باطنى سب فتنوں سے محفوظ ركھے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب