اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

كيا فقير كو نقدى كى صورت ميں زكاۃ دينے كى بجائے اسے سامان خريد كر دينا جائز ہے؟

42542

تاریخ اشاعت : 21-05-2014

مشاہدات : 4947

سوال

ميرے مال كى زكاۃ ميرے ذمہ ہے، تو كيا ميں نقدى دينے كى بجائے اس زكاۃ كے مال سے غلہ، كپڑے وغيرہ خريد كر فقير اور محتاج كو دے سكتا ہوں؟ كيونكہ اگر ميں انہيں نقد رقم ديتا ہوں تو وہ غير مفید یا گناہوں کا باعث بننے والی اشياء ميں صرف كرديں ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اصل تو يہى ہے كہ جس مال ميں زكاۃ واجب ہو اس مال ميں سے زكاۃ لى جائے اور فقراء مساكين كو اسى طرح دے دى جائے۔

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:

ایک شخص كے ذمہ زكاۃ ہے، تو كيا اس كے ليے اپنے محتاج رشتہ داروں كو دينى جائز ہے، يا كہ وہ زکاۃ سے ان كے ليے كپڑے يا غلہ خريد لے؟

تو شيخ الاسلام رحمہ اللہ كا جواب تھا:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، مستحقين كو زكاۃ دينى چاہئے، چاہے وہ عزیز واقارب ہى کیوں نہ ہوں بشرطیکہ وہ اسکی عيال داری و كفالت ميں نہ آئیں، ليكن وہ انہيں رقم ہى ادا كرے، اور پھر وہ خود كسى دوسرے كو اپنى ضروريات كى اشياء خريدنے كى اجازت ديں۔

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 25 / 88 )

دائمی فتوى كميٹى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

كيا زكاۃ كے مال سے دينى كتب خريد كر تقسيم كرنى جائز ہيں؟

تو كميٹى كا جواب تھا:

" زكاۃ كے مال سے دينى كتب خريد كر تقسيم كرنى جائز نہيں، بلكہ زكاۃ كا مال بعينہ مستحقين كو ادا کیا جائے گا، زكاۃ كے مستحق افراد كا ذكر كرتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالى نے فرمايا ہے:

( إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ )

ترجمہ: زكاۃ تو صرف فقراء، مساكين، اور اس پر كام كرنے والے، اور تاليف قلب ميں، اور غلام آزاد كرانے ميں، اور قرض داروں كے ليے، اور اللہ كے راستے ميں، اور مسافروں كے ليے ہے، يہ اللہ تعالى كى طرف سے فرض كردہ ہے، اور اللہ تعالى علم والا اور حكمت والا ہے ۔ التوبۃ /60

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتوں كا نزول فرمائے۔

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 47 )

اور اگر زكاۃ كا مستحق شخص گناہوں میں ڈوبا ہوا ہے، اور اس كے متعلق خدشہ ہو كہ وہ زكاۃ كا مال معصيت و نافرمانى ميں صرف كرے گا تو ہم زكاۃ كا مال اسے دينگے جو اس کی کفالت کرتا ہو، يا پھر ہم مستحق سے مطالبہ كرينگے كہ وہ اپنى اشیائے ضرورت کی خریداری ہمارے ذمہ لگا دے، ہم خرید کے دے دینگے۔

شيخ محمد صالح عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اگر كوئى فقير و محتاج شخص سگرٹ نوشى ميں مبتلا ہے توزكاۃ اس كى بيوى كو دى جائيگى تا كہ وہ خود گھريلو ضروريات كى اشياء خريد سكے ہو، اور يہ بهى ممكن ہے كہ ہم اسے كہيں: ہمارے پاس زكاۃ ہے كيا آپ چاہتى ہيں كہ ہم آپ كے ليے ضروريات كى يہ اشياء خريد ديں؟

اور اسکی بیوی سے ان اشياء كى خريدارى کیلئے ذمہ داری طلب كريں، تو اس طرح مقصد پورا، اور مانع ـ معصيت و نافرمانى ميں معاونت ـ زائل ہو جائے گا، كيونكہ جس نے كسى شخص كو كچھ پيسے ديے جس سے وہ سگرٹ خريدے تو اس نے معصيت و نافرمانى ميں اس كى معاونت كرتا ہے، اور جس سے اللہ تعالى نے اسے منع كيا ہے اس كا مرتكب ہوا ہے۔

فرمان بارى تعالى ہے:

اور تم معصيت و نافرمانى اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو .

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 17 / سوال نمبر:262 )

اور شيخ سے يہ بھى سوال كيا گيا:

اگر علم ہو كہ فقير و محتاج خاندانوں كے ليے اشياء كى خريدارى بہتر ہے تو كيا ان كے ليے لباس اور دیگر سامان زكاۃ كى صورت ميں دينا جائز ہے، يعنى اس بات كا خدشہ ہو كہ اگر انہيں نقد رقم دى گئى تو وہ يہ رقم ايسى اشياء كى خريدارى ميں صرف كرينگے جن ميں كوئى فائدہ نہيں ہے؟

تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

يہ مسئلہ بہت اہم ہے اور لوگوں کو اسکی ضرورت بھی ہے، کہ غریب گھرانے كے افراد کو اگر ہم نے نقد رقم دى تو خدشہ ہے کہ وہ ايسى اشياء كى خريدارى ميں ضائع كرينگے جن كا كوئى فائدہ نہيں، اور اگر ہم ان كے ليے ان كى ضروريات كى اشياء خريد كر ان كے سپرد كريں تو كيا ايسا كرنا جائز ہے؟

اہل علم كے ہاں معروف يہى ہے كہ ايسا كرنا جائز نہيں ہے، يعنى انسان كے ليے جائز نہيں كہ وہ نقد رقم دينے كى بجائے اپنى زكاۃ كى رقم كے ساتھ كچھ اشياء خريد كر انہيں دے۔

علماء كا كہنا ہے كہ: فقير اور محتاج كے ليے نقد رقم زيادہ مفید ہے، كيونكہ وہ نقد رقم جہاں چاہے صرف كر سكتا ہے، اور عین ممکن ہے کہ خریدی ہوئی اشياء كى اسی ضرورت ہی نہ ہو، اور وہ انہيں كم قیمت پر فروخت كر دے۔

ليكن اسکا ايك حل ہے ، چنانچہ اگر آپ كو خدشہ ہو كہ اگر آپ نے انكو زكاۃ كى رقم ادا كى تو وہ اسے اپنى ضروريات كے علاوہ كہيں اور صرف كردينگے تو آپ گھر كے سربراہ سے كہيں چاہے وہ والد ہو يا ماں يا بھائى يا چچا كہ: "ميرے پاس زكاۃ ہے آپ كو كن كن اشياء كى ضرورت ہے تا كہ ميں وہ اشياء خريد كر آپ كو بھيج دوں" اگر آپ يہ طريقہ اختيار كريں تو جائز ہے، اور زكاۃ بھی ضرورت کی جگہ ميں صرف ہوجائے گى۔

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 18 ) سوال نمبر ( 643)

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب