سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

كراٹے كھيلنے كا حكم

4259

تاریخ اشاعت : 31-12-2007

مشاہدات : 6637

سوال

كراٹے كھيلنے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

كراٹے ايك ايسا فن ہے جو خالى ہاتھ بغير كسى اسلحہ كے اپنا دفاع اور لڑائى كرنے كا كھيل ہے، جس ميں پاؤں، ہاتھ اور ہتھيلى كے كنارے كا استعمال ہوتا ہے، جو مرد كى تمام قدرات و امكانيات پر مركز ہوتا ہے.

اس كھيل كے متعلق شرعى نقطہ نظر:

اس كھيل ميں كئى ايك جسمانى اور نفسياتى اور ذہنى فوائد پائے جاتے ہيں، اور يہ كھيل كئى ايك جوانب سے شريعت كے موافق ہے تو بعض اعتبارات سے شريعت كے مخالف بھى ہے.

شريعت كے موافق درج ذيل اعتبار سے ہے:

عمومى طور پر پورا ساتر لباس، اس كھيل كے قوانين و ضوابط اور اصول ميں يہ شامل ہے كہ سوتى سفيد رنگ كا لباس پہنا جائے، سلوار بھى اسى كپڑے كى اتنى كھلى ہو كہ پورى طرح ٹانگوں اور پنڈليوں كو پورى حركت كرنے كا موقع فراہم كرے.

اس كھيل كو كھيلنے والے كھلاڑى كے اتنى شديد ضرب لگانى ممنوع ہے جو مدمقابل كو اذيت دے، اس كھيل كا قانون ہے كہ ضرورى ہے كہ وار ايسا ہو جو مدمقابل كو ضرر نہ دے، ليكن باكسنگ ميں ايسا نہيں.

ليكن دوسرى طرف يہ كھيل بھى كچھ نہ كچھ شريعت كے خلاف ہے، اس كھيل ميں چہرے پر مارنے كى اجازت ہے.

اس كے ساتھ ساتھ كچھ انڈين اديان كے رسم و رواج بھى اس ميں پائے جاتے ہيں، جس ميں دونوں كھلاڑيوں كا كھيلنے سے قبل سلام كا تبادلہ كرنا ہوتا ہے، اور يہ سلام جھك كر كيا جاتا ہے تقريبا ركوع كے قريب ہى ( اور مسلمان شخص غير اللہ كے سامنے نہيں جھكتا ) اور كچھ دوسرى تدريبات جو كہ خاموشى اور تركيز ہے جو كہ ( بدھ مت وغيرہ ) سے لى گئى ہيں، جسے مكمل طور پر اسلام تسليم نہيں كرتا.

اگر يہ ممنوعہ كام نہ پائے جائيں تو اس كھيل كو سيكھنے ميں كوئى ممانعت نہيں، ان رسمى اور عالمى طور پر اس سے ركنا ممكن نہ ہو تو غير رسوى طور پران ممنوعہ كاموں كو ختم كرنا ممكن ہے، لہذا يہ كوئى ضرورى نہيں كہ يہ كھيل عالمى كھلاڑى بننے كے ليے ہى سيكھا جائے، اور اس كے ليے كلب اكيڈمى ہوں جہاں ان مخالف شريعت كاموں كا اہتمام كيا جاتا ہو كہ يہ اس كھيل كے قوانين ہيں لہذا ہر كھلاڑى كے ليے انہيں اپنانا لازم ہے.

ماخذ: ماخوذ از كتاب: قضايا اللھو و الترفيہ صفحہ نمبر ( 369 )