جمعہ 26 جمادی ثانیہ 1446 - 27 دسمبر 2024
اردو

جنسی بے راہ روی کے شکار لوگوں کی حمایت کرنے والی کمپنیوں اور ایپ وغیرہ کے ساتھ لین دین کرنے کا حکم۔

سوال

جنسی بے راہ روی کے شکار لوگوں کی حمایت کرنے والی کمپنیوں ، سافٹ وئیرز اور ایپ وغیرہ کے ساتھ لین دین کرنے کا حکم۔

الحمد للہ.

اول:

لواطت بہت بڑا جرم اور کبیرہ ترین گناہوں میں شامل ہے

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ لواطت بہت بڑا جرم ہے اور کبیرہ ترین گناہوں میں بڑا گناہ ہے، یہ قبیح ترین فعل ہے، اللہ تعالی نے سیدنا لوط علیہ السلام کی قوم کو اسی وجہ سے تباہ فرمایا تھا کہ جب ہم جنس پرستی میں بہت زیادہ ملوث ہو گئے تو انہیں اللہ تعالی نے نہایت سنگین ترین سزائیں دیں۔

ہم اس سے پہلے اپنی ویب سائٹ پر متعدد سوالات کے جوابات میں اس کا تذکر کر چکے ہیں، ان کا مطالعہ مفید رہے گا، ان میں سے چند سوالات یہ ہیں: (38622 )، (5177 )اور (27176

اس قبیح ترین فعل کے لیے تعاون کرنا، یا اسے پھیلانے میں حصہ ڈالنا ، یا اس قبیح فعل میں ملوث افراد کی مادی یا معنوی مدد کرنا  بالکل حرام ہے؛ کیونکہ اس وجہ سے دھرتی پر بے حیائی اور جنسی بے راہ روی پھیلے گی، جو کہ ساری انسانیت کے لیے تباہی، عذاب اور بربادی کا باعث بنے گی۔

اللہ تعالی نے برے کاموں میں تعاون کرنے سے منع فرمایا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

 ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں میں تعاون کرو، گناہ اور جارحیت کے کاموں میں باہمی تعاون مت کرو، اور اللہ تعالی سے ڈرو، یقیناً اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے۔[المائدہ: 2]

پھر نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ گمراہی کی طرف رہنمائی کرنے والے کو بھی اتنا ہی گناہ ملے گا جتنے گمراہی پر چلنے والے کو ملے گا، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (۔۔۔ اور جو شخص کسی گمراہی کی دعوت دے تو اس داعی کو بھی ان لوگوں کے گناہ کے برابر گناہ ملے گا جو اس گمراہی پر چلیں گے، اور اس میں کسی کا بھی گناہ کم نہیں کیا جائے گا۔) مسلم: (2674)

دوم:

جنسی بے راہ روی کے شکار لوگوں کی حمایت کرنے والی کمپنیوں اور ایپ وغیرہ پر کام کرنا

جنسی بے راہ روی کے شکار لوگوں کی حمایت کرنے والی کمپنیوں اور ایپ وغیرہ کے ساتھ کام کرنے کے حکم کا تعلق "امر بالمعروف اور نہی عن المنکر " کے اصول و ضوابط کے ساتھ ہے، چنانچہ یہاں یہ کہا جائے گا کہ:

اگر انہیں استعمال میں نہ لانے سے  واقعی ایسا ہو کہ یہ کمپنیاں برائی کی حمایت کرنے سے رک جائیں، یا  جنسی شذوذ کی حمایت کا معاملہ سب لوگوں کے سامنے آ جائے اور انہیں اس عمل سے روکنے میں مدد ملے، لوگ ان کمپنیوں کی حقیقت سے آگاہ ہو جائیں تو پھر ان کمپنیوں سے خریداری کرنا اور ان کی مصنوعات استعمال نہ کرنا  واجب ہے، ان سے اپنے معاملات  ختم کر دیں؛ اس کے متعدد مقاصد ہیں: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری ادا ہو، مختلف معاشروں میں عام ہونے والی جنسی بے راہ روی  جیسی برائی سے اظہار لا تعلقی ہو، دشمنان اسلام کی حامی ا ور معاون کمپنیوں کی برائیوں کو مسترد کیا جائے، مسلمانوں کا غلبہ اسلام  کے عمل میں حصہ شامل ہو، اور اسلام مخالف سرگرمیوں کی سرکوبی ہو۔

ابو الوفاء ابن عقیل حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ لوگوں کے ہاں اسلام کی کیا قدر ہے تو یہ مت دیکھیں کہ جامع مسجد کے دروازوں پر کتنا رش ہوتا ہے یا میدان عرفات میں  تلبیہ کی صدائیں کتنی بلند ہوتی ہیں! بلکہ یہ دیکھیں کہ دشمنان اسلام کے ساتھ ان کا کیسا تعلق ہے؟ ابن راوندی اور معری -دونوں پر اللہ کی لعنت ہو- نظم و نثر کی صورت میں  بہت کچھ لکھتے رہے۔ ابن راوندی کہا کرتا تھا کہ یہ احادیث خرافات ہیں۔ جبکہ معری نے شعر کہا کہ:
{ تَلَوْا باطِلًا وجَلَوْا صارِمًا … وقالُوا صَدَقْنا فَقُلْنا نَعَمْ}

اس شعر میں معری نے باطل -نعوذ باللہ- قرآن کریم کو کہا ہے۔   یہ لوگ کئی سال زندہ رہے، ان کی قبروں کی بڑی تعظیم کی جاتی رہی، ان کی تصانیف بھی بہت خریدی گئیں۔ یہ سب چیزیں دل میں دینی سرد مہری  کی علامت ہیں۔" ختم شد
"الآداب الشرعية" لابن مفلح (1/237)

ایسی کمپنیوں کے ساتھ لین دین کی ممانعت مزید ضروری اس وقت ہو جاتی ہے جب ان کمپنیوں کی مصنوعات کے ایسے متبادل موجود ہوں جنہیں تیار کرنے والے جنسی شذوذ کے حامی نہیں ہیں، تو ایسے میں ان کمپنیوں سے لا تعلقی  میں واضح طور پر فائدہ  بھی ہے اور نقصان نہ ہونے کی یقینی صورت بھی۔

اور اگر ان کمپنیوں کی مصنوعات فضول قسم کی ہوں کہ ان کا کوئی فائدہ بھی نہ ہو تو پھر ان کا بائیکاٹ مزید لازمی   ہو جاتا ہے۔ اور ان کمپنیوں کی اکثر مصنوعات فضول قسم کی ہوتی ہیں، بلکہ عین ممکن ہے کہ ان کی مصنوعات انسان کو جسمانی اور عقلی طور پر بھی نقصان پہنچائیں، لیکن لوگ ہیں کہ پھر بھی ان کے پیچھے ایسے مارے پھرتے ہیں جیسے آگ پر پروانے گرتے ہیں!!

لیکن اگر ان کی مصنوعات ایسی ہیں جن کی مسلمانوں کو ضرورت ہے، اگر انہیں استعمال نہیں کرتے تو اسے نقصان ہوتا ہے، یا اتنی تنگی ہوتی ہے کہ برداشت سے باہر ہو جائے ، پھر اس کے متبادل ذرائع بھی موجود نہ ہوں تو پھر ایسی صورت میں ان کا بائیکاٹ کرنا واجب نہیں ہو گا۔ بشرطیکہ کی ان کی مصنوعات بذات خود غلط نہ ہوں؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی یہودیوں کے ساتھ خرید و فروخت کی ہے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذرہ یہودی کے پاس گروی رکھی ہوئی تھی، حالانکہ یہودیوں کے کفر سے بڑا کوئی گناہ نہیں ہے!!

تو ایسی صورت میں یہ ہونا چاہیے کہ آپ تسلسل کے ساتھ ممکنہ وسائل کو استعمال کرتے ہوئے ان پر تنقید جاری رکھیں۔

اور جیسے ہی آپ کو ان کی مصنوعات اور سافٹ وئیرز کا متبادل ملے  تو فوری متبادل کو استعمال کریں، اور ان کی مصنوعات استعمال کرنا چھوڑ دیں؛ بائیکاٹ کا فائدہ تبھی ہوتا ہے جب سب میں اجتماعیت پائی جائے؛ کیونکہ اجتماعی بائیکاٹ میں ہی انہیں مادی نقصان ہو گا اور وہ تبھی  اس غلط کام سے پیچھے ہٹیں گے؛ کیونکہ جب انہیں علم ہو گا کہ ہمارا بائیکاٹ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ ہم غلط چیزوں کو سپورٹ کرتے ہیں، اس طریقہ کار میں دیگر کمپنیوں کے لیے بھی سبق ہو گا۔

ایسی کمپنیوں کا  انفرادی یا اجتماعی بائیکاٹ زیادہ کیا جائے گا جو  اسلام مخالف سرگرمیوں کی مالی معاونت کرتی ہیں، اور ایسی سرگرمیوں  کو لوگوں میں عام کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ جبکہ جن کمپنیوں نے منفی سرگرمیوں کا شعار استعمال کیا، یا منفی سرگرمی میں ملوث مشاہیر کی شہرت کی ، لیکن ان کی مالی امداد نہیں کی تو ان کا بائیکاٹ پہلی قسم سے کم نوعیت کا ہو گا۔

کافروں اور دشمن اقوام کے ساتھ تجارتی تعلقات کا حکم جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (20732 ) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب