منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

صرف رمضان المبارك كےفرضي روزے ركھنا اور نفلي روزے بالكل نہ ركھنا

سوال

جوشخص صرف رمضان المبارك كےفرضي روزے ہي ركھتا ہو اور كوئي نفلي روزہ نہ ركھے ايسے شخص كا حكم كيا ہوگا ؟
كيا ميرے ليے صدقہ كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسلمان شخص پر رمضان المبارك كےروزے ہي فرض ہيں، اور اس كے علاوہ جتنےبھي فضليت كےايام ہيں مثلا يوم عرفہ، يوم عاشوراء وغيرہ ان ايام كےروزے ركھنا واجب نہيں ليكن اگر كوئي شخص روزہ ركھنےكي نذر مان لے تو وہ روزہ ركھنا واجب ہوگا، ليكن نذر كےعلاوہ كوئي روزہ واجب نہيں .

حديث ميں طلحہ بن عبيداللہ رضي اللہ تعالي عنہ سےثابت ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:

( رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كےپاس نجد كےعلاقہ سے ايك شخص آيا اس كےسر كےبال پراگندہ تھے اس كي آواز كي گنگناہت سنائي دے رہي تھي ليكن يہ سمجھ نہيں آرہي تھي كہ وہ كيا كہہ رہا ہے حتي كہ جب وہ قريب ہوا تووہ اسلام كےمتعلق سوال كررہا تھا تورسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

دن اور رات ميں پانچ نمازيں ،اس شخص نے كہا كہ كيا اس كےعلاوہ بھي كچھ ہے؟ تورسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا نہيں مگريہ كہ تو نوافل ادا كرے، رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا: رمضان المبارك كےروزے، اس نےكہا كيا اس كےعلاوہ بھي مجھ پر ہے؟ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: نہيں مگر يہ كہ تو نفلي روزے ركھے، راوي كہتےہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےاس كےليے زكاۃ كا بھي ذكر كيا تواس نےكہا كيا اس كے علاوہ بھي ميرے ذمہ ہے؟ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا: نہيں مگر تو نفلي صدقہ ادا كرے، تووہ شخص يہ كہتا ہوا چل ديا اللہ كي قسم ميں نہ تو اس سے زيادہ كرونگا اور نہ ہي اس ميں كچھ كمي كرونگا، رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كہنےلگے: اگر يہ سچا رہا تو كامياب ہوگيا. صحيح بخاري حديث نمبر ( 46 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 11 )

يہ حديث اس كي دليل ہے كہ صرف رمضان المبارك كےروزے ہي فرض ہيں، اور اس كےعلاوہ فضيلت والےايام وہ فرض نہيں اور ان كےروزے ترك كرنے سے انسان گنہگار نہيں ہوتا .

امام نووي رحمہ اللہ تعالي نے مسلم شريف كي شرح ميں كہا ہےكہ:

اس حديث ميں يہ بيان ہوا ہے كہ رمضان المبارك كےسواعاشوراء وغيرہ كےروزے فرض نہيں، اس پر سب كا اتفاق ہے. اھ

ليكن كسي لائق نہيں كہ وہ فضيلت والےايام مثلا عاشوراء اور يوم عرفہ اور شوال كےچھ روزے ترك كردے، كيونكہ اس كا بہت زيادہ اجروثواب اور فضليت ہے، اور اس ليےبھي كہ نفلي روزے فرضي روزے ميں كمي كو پورا كرتے ہيں .

حديث ميں ہےابوھريرہ رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ ميں نے رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم سے سنا آپ فرمارہے تھے:

( قيامت كےروز سب سے پہلے بندے كےاعمال ميں سے اس كي نمازوں كا حساب ہوگا اگر تو يہ صحيح ہوئيں تو وہ كامياب وكامران اور نجات يافتہ ہوا اور اگر اس ميں فيل ہوا تو وہ خائب وخاسر ہوجائےگا، اگر اس كي فرضي نمازوں ميں كچھ كمي ہوئي تو اللہ عزوجل فرمائيں گےديكھو كيا ميرے بندے كےنفل نوافل ہيں توان نوافل سے اس فرضوں كي كمي پوري كي جائےگي ، پھر سب اعمال كا حساب اسي طرح ہوگا ) جامع الترمذي حديث نمبر ( 413 ) سنن نسائي حديث نمبر ( 465 ) علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے صحيح ترمذي ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

يہ اس كي دليل ہےكہ فرضي روزوں ميں جو كمي ہوگي وہ نفلي روزوں سے پوري كي جائےگي .

اور صدقہ كرنے كےبارہ ميں آپ كا سوال واضح نہيں ، ليكن اگر سوال كرنے كا يہ مقصد ہے كہ اس جيسے شخص پر صدقہ كرنا كيسا ہے ؟ تو اس كا جواب يہ ہے كہ ايسے شخص پر صدقہ كرنا جائزہے ، جب وہ نماز ادا كرتا اور مسلمان ہے تواس پر صدقہ كيا جاسكتا ہے، جيسا كہ اوپر بيان ہوچكا ہے كہ اس كا نفلي روزے نہ ركھنے ميں كوئي گناہ نہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب