بدھ 17 جمادی ثانیہ 1446 - 18 دسمبر 2024
اردو

كيا بيوى كو راضى ركھنا ضرورى ہے

43166

تاریخ اشاعت : 25-09-2016

مشاہدات : 7151

سوال

خاوند اپنى بيوى كے سلسلہ ميں كيا واجبات ہيں، كيا بيوى كو راضى ركھنا واجب ہے يا نہيں ؟
ميرا خاوند ميرے ساتھ اپنے خاندان كے باقى افراد جيسے معاملات نہيں كرتا، مجھ سے زيادہ اپنے والدين اور بہن بھائيوں كا خيال كرتا ہے، ميں چاہتى ہوں كہ جس طرح انہيں خوش ركھتا ہے مجھے بھى ركھے اور ميرا اہتمام كرے، كيا آپ مجھے كوئى ايسا سبب بتا سكتے ہيں جو ميں خاوند كو بتاؤں تا كہ وہ مجھ سے زيادہ محبت كرنے لگے اور ميرا زيادہ خيال كرے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

خاوند پر اپنى بيوى كے ساتھ حسن معاشرت اور حسن سلوك كرنا واجب ہے، خاوند كو اپنى بيوى كے كھانے پينے اور لباس و رہائش وغيرہ كا خرچ اٹھانا چاہيے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور ان عورتوں كے ساتھ حسن معاشرت كے ساتھ پيش آؤ النساء ( 19 ).

اور ايك دوسرے مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان اس طرح ہے:

اور ان عورتوں كو بھى اسى طرح حق حاصل ہيں جس طرح ان پر ہيں اچھے طريقہ كے ساتھ، اور مردوں كو ان عورتوں پر مرتبہ حاصل ہے، اور اللہ تعالى غالب و حكمت والا ہے البقرۃ ( 228 ).

امام احمد اور ابو داود رحمہ اللہ نے معاويہ بن حيدۃ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں ميں نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم ميں سے كسى كى بيوى كے ہم پر كيا حقوق ہيں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تم خود كھاؤ تو بيوى كو بھى كھلاؤ، اور جب تم پہنو تو بيوى كو بھى پہناؤ اور اس كے چہرے پر مت مارو، اور نہ ہى اسے قبيح اور برا كہو اور گھر كے علاوہ اس سے كہيں بائيكاٹ مت كرو "

مسند احمد حديث نمبر ( 200025 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2142 ).

ابو داود رحمہ اللہ كہتے ہيں: تم اسے قبيح مت كہو كا معنى يہ ہے كہ تم اسے اللہ تيرا برا كرے مت كہو.

علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اس حديث كو حسن صحيح قرار ديا ہے.

اور پھر كئى ايك احاديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى عورتوں كے ساتھ بہتر سلوك كرنے كى وصيت فرمائى ہے، اس ليے خاوند كو اللہ سبحانہ و تعالى كا ڈر اور تقوى اختيار كرتے ہوئے بيوى سے حسن سلوك كرنا چاہيے، اور ہر ايك كو اس كا مقرر كردہ حق دينا چاہيے، كيونكہ والدين كے ساتھ حسن سلوك اور صلہ رحمى بيوى كے ساتھ حسن سلوك اور اس كى تكريم كے منافى و متعارض نہيں، اس كے ليے آپ اپنے خاوند كو جس كى نصيحت كر سكتى ہيں وہ سب سے بہتر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا درج ذيل فرمان ہے:

" تم ميں سے سب سے اچھا اور بہتر وہى ہے جو اپنى بيوى كے ليے اچھا ہے، اور ميں تم ميں سے اپنى بيويوں كے ليے سب سے بہتر اور اچھا ہوں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 3895 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1977 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بہترى اور خير كا معيار بيوى كا اكرام بنايا ہے، اس ليے جو كوئى بھى مسلمانوں ميں سب سے بہتر اور اچھا بننا چاہتا ہے تو وہ اپنى بيوى سے حسن سلوك كرے، اور يہ حسن سلوك بيوى بچوں اور عزيز و اقارب سب كو شامل ہے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمانا كہ:

" تم جو كچھ بھى اللہ كى رضا كے ليے خرچ كرو گے اس كا اللہ كے ہاں اجروثواب پاؤ گے، حتى كہ وہ لقمہ جو تم اپنى بيوى كو كھلاؤ گے اس كا بھى اجرملےگا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 56 ).

آپ كو بھى چاہيے كہ آپ اپنى معاملات ميں كمى و كوتاہى تلاش كر كے اس كمى كو دور كرنے كى كوشش كريں، كيونكہ ہو سكتا ہے آپ كى جانب سے خاوند كے حق ميں كوتاہى ہو رہى ہو، اور آپ اس صحيح خيال نہ كرتى ہوں اس كے ليے آپ زيبائش نہ اختيار كرتى ہوں، اور اس كى ضروريات پورى كرنے ميں ليت و لعل سے كام ليتى ہوں.

اس كے ساتھ ساتھ آپ مزيد صبر و تحمل سے كام ليں كيونكہ صبر و تحمل ميں ہى خير كثير اور بہتر انجام پايا جاتا ہے.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

صبر كرو يقينا اللہ تعالى صبر كرنے والوں كے ساتھ ہے الانفال ( 46 ).

اور فرمان بارى تعالى ہے:

يقينا جو تقوى اختيار كرے اور صبر كرے تو يقينا اللہ تعالى صبر كرنے والوں كا اجروثواب ضائع نہيں كرتا يوسف ( 90 ).

اور ايك مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:

آپ صبر كريں يقينا انجام متقيوں كے ليے ہى ہے ھود ( 49 ).

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہمارے اور سب مسلمانوں كے حالات كى اصلاح فرمائے.

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب