بدھ 24 جمادی ثانیہ 1446 - 25 دسمبر 2024
اردو

خاوند سسرال والوں کا احترام نہیں کرتا اورنکاح کے بعد رخصتی سے قبل ہی اسے طلاق دے دی

4318

تاریخ اشاعت : 27-08-2003

مشاہدات : 12065

سوال

میرے سوال کے دو جزء ہیں :
پہلا:
مجھے خاوند سے طلاق ہوچکی ہے جس کے کئي ایک اسباب ہیں ، جن میں سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ خاوند میرے والدین کا احترام نہیں کرتا تھا وہ ان کے ساتھ کلام کرنے میں بدتمیزی سے کام لیتا اوریہ ایک بار نہیں بلکہ کئي بار ہوچکا ہے ، میں نے سوچا کہ جو میرے والدین کا احترام نہیں کرتا وہ میرا احترام کیسے کرگا ؟
میں اپنے والدین سے بہت زيادہ محبت کرتی ہوں اورانہیں تکلیف میں نہيں دیکھنا چاہتی ، میرا سوال یہ ہے کہ خاوندکے ذمہ بیوی کے والدین کے بارہ میں کیا واجب ہے ، کیا اس پر بھی یہ واجب نہیں کہ وہ بیوی کے والدین کا عزت واحترام کرے ؟
کیا جب عورت شادی کرلیتی ہے تو اس کا یہ معنی ہے کہ اب اولیت خاوند کو حاصل ہے اوراس کے والدین کوثانوی حيثیت ؟
دوسرا سوال :
ہمارا صرف نکاح ہی ہوا اور رخصتی آئندہ ماہ متوقع تھی لیکن اس کے باوجود میں اپنی ‏عذریت ( کنوارہ پن ) ختم کرچکی ہوں ، اب مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں میرا سابقہ خاوند عدالت میں اس راز کوفاش نہ کردے جس سے مجھے اپنے خاندان میں اورخاص کراپنے والدین کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑے گی ، کیا رخصتی سے قبل میرا کنوارہ پن ختم ہونا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


والدین کا اولاد پرعظیم حق ہے اوربیوی کے ذمہ خاوند کابھی بہت حق ہے بلکہ اعظم حقوق میں شامل ہوتا ہے ، لھذا ان دونوں کے حقوق میں سے کسی ایک کے حق میں بھی کمی نہیں کرنی چاہیے ، جب بیوی یہ دیکھے کہ خاوند نے اس کے والدین کے حق میں کچھ کمی اورکوتاہی کی ہے تو اسے اپنے خاوند کواچھے اوراحسن انداز میں سمجھانا اوروعظ ونصیحت کرنی چاہيۓ ، اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اوران ( اپنی بیویوں ) سے اچھے اوراحسن انداز سے معاشرت اورزندگی بسر کرو ۔

اس آیت میں بیوی کے والدین کے ساتھ بھی احسان کرنا شامل ہے اس لیے کہ اس سے بیوی کوخوشی اورفرحت ہوگی ، اورسسرال والوں کوتکلیف نہیں دینی چاہیے کیونکہ انہيں تکلیف دینے سے بیوی کوبھی تکلیف ہوگي ۔

اور اسی طرح اگر عورت کے والدین میں سے کوئي ایک یا پھر دونوں خاوند کےحق کے بارہ میں کوئي غلطی کرتے ہیں تو عورت کوچاہیے کہ وہ اپنے والدین کواحسن انداز سے وعظ ونصیحت کرے اور سمجھائے کہ غیبت اورظلم و زيادتی کرنا بہت ہی زيادہ خطرناک کام ہے ۔

اوراگروالدین بیٹی کوکوئي حکم دیں اورخاوند نے کسی ایسی چيز کا حکم دیا جووالدین کے حکم کے معارض اورمخالف ہوتوخاوند کے حکم کومقدم کیا جاۓ گا ، اس لیے کہ شریعت اسلامیہ میں خاوند کا حق اعظم ہے ، اس کا معنی یہ نہیں کہ والدین کی نافرمانی کی جائے اوران کے حقوق ادا نہ کیے جائيں لیکن ایسا کام صرف تعارض کی صورت میں کیا جائے گا ۔

دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ :

عقد شرعی اورنکاح کے بعد اوررخصتی سے قبل شریعت اسلامیہ میں آدمی کا بیوی سے جماع کرنا حرام نہيں ، عقد نکاح کے بعد جوکچھ حاصل ہوا ہے وہ حلال ہے ، تو اس بنا پر آپ جس شرمندگی سے ڈرتی ہيں وہ کوئی بے عزتی نہيں جس کے انجام سے آپ ڈر رہي ہيں ۔

اورجب خاوند اپنی بیوی کودخول کے بعد طلاق دے تو بیوی کوکامل مہر لینے کا حق حاصل ہے اورخاوند اسے مکمل مہر ادا کرے گا ۔

اوراگریہ ممکن ہوسکے کہ کچھ لوگ آپ کے درمیان واسطہ بن کر آپ کی صلح کرودیں اورآپ شریعت اسلامیہ کے مطابق عمل کرتے ہوۓ دینی تعلیمات کا پر عمل پیرا ہوکر اکٹھے ہوجائيں اوراسلامی آداب کا خیال رکھیں تو یہ آپ سب کےلیے بہتر اوراچھا اورسب سے بہتر راہ ہے ۔

اوراللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد