جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

امام ہكلا ہے، اور بعض مقتديوں كو پتہ ہى نہيں چلتا كہ اس نے قرآت كى ہے

43737

تاریخ اشاعت : 10-05-2006

مشاہدات : 5717

سوال

ہمارا امام حروف كو ايك دوسرے سے بدل ديتا ہے، اور ہم ميں اس سے زيادہ بہتر حافظ اور اچھى قرآت كرنے والے بھى ہيں، اس موصوف كى امامت كا حكم كيا ہے؟
اور امام سے زيادہ حافظ اور فصيح مقتدى كى غير فصيح امام كے پيچھے نماز كا حكم كيا ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سوال نمبر ( 50536 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ ہكلا پن والے امام ( جو حروف كو ايك دوسرے ميں بدل ديتا ہے ) كى امامت ميں علماء كرام كا اختلاف ہے.

صحيح يہى ہے كہ اس كى امامت صحيح ہے، ليكن اولى اور بہتر يہى ہے كہ صحيح قرآت والے شخص كو آگے كيا جائے.

شيخ محمد صالح العثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

جب امى شخص جو فاتحہ بھى نہ جانتا ہو اپنے جيسے امى شخص ( يہاں امى سے مراد وہ شخص ہے جو سورۃ فاتحہ كى قرآت صحيح نہ كر سكے ) كى امامت كروائے تو نقص ميں برابرى كى بنا پر اس كى نماز صحيح ہے، اور اگر امى شخص قارى ( يہاں قارى سے مراد وہ شخص ہے جو فاتحہ كو اچھى طرح پڑھ سكے ) كى امامت كروائے تو يہ صحيح نہيں، مذہب بھى يہى ہے.

اس كى علت يہ ہے كہ: مقتدى امام سے زيادہ بہتر حالت والا ہے، تو پھر اعلى حالت والا شخص ادنى اور كم حالت والے شخص كى اقتدا كيسے كر سكتا ہے.

دوسرا قول يہ ہے كہ: يہ امام احمد كى ايك روايت ہے:

امى كے ليے قارى كى امامت كروانا صحيح ہے، ليكن اس سے اجتناب كرنا ضرورى ہے؛ كيونكہ اس ميں كچھ نہ كچھ درج ذيل فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم كى مخالفت ہوتى ہے:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" قوم كى امامت ان ميں سے كتاب اللہ كا سب سے زيادہ حافظ شخص كروائے "

اور پھر اختلاف كى رعائت ركھتے ہوئے بھى ايسا نہيں كرنا چاہيے.

" اور اگر وہ اس كى اصلاح كى قدرت ركھتا ہے تو اس كى نماز صحيح نہيں "

يعنى: اگر امى شخص اس غلطى كى اصلاح كرنے كى قدرت ركھتا ہو جو معنى كو بدل دے اور وہ اصلاح نہ كرے تو اس كى نماز صحيح نہيں، اور اگر وہ قدرت نہيں ركھتا تو امامت كے بغير اس كى نماز صحيح ہے، ليكن وہ اپنے جيسے شخص كى امامت كروا سكتا ہے.

ليكن صحيح يہ ہے كہ: اس حالت ميں اس كى امامت صحيح ہے؛ كيونكہ وہ سورۃ فاتحہ كو صحيح ادا كرنے سے معذور ہے، اور اللہ تعالى سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

تم اپنى استطاعت كے مطابق اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو .

اورايك مقام پر ارشاد ربانى ہے:

اللہ تعالى كسى بھى نفس كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا .

بعض ديہاتوں ميں كچھ لوگ ايسے بھى ہيں جو سورۃ فاتحہ صحيح طور پر نہيں پڑھ سكتے، ہو سكتا ہے كہ آپ اسے اہدنا يعنى الف پر زبر پڑھتا ہوئے سنيں، كيونكہ وہ اسى طرح پڑھے گا جس كا عادى ہے، اس كے علاوہ پڑھ ہى نہيں سكتا، غلطى كى اصلاح سے عاجز شخص كى نماز صحيح ہے، ليكن جو شخص غلطى كى اصلاح كرنے كى قدرت اور طاقت ركھتا ہو اور وہ غلطى معنى كو بدل ديتى ہو تو اس كى نماز صحيح نہيں ہو گى.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 248 - 249 ).

جو شخص قرآت اچھى نہ كر سكتا ہو اسے آگے نہيں كرنا چاہيے چاہے وہ حافظ قرآن ہى ہو، بلكہ امامت كے ليے اسے آگے كيا جائے جو اچھى قرآت كر سكے اور حروف كو اس كے مخرج سے ادا كرے، اس كے ساتھ ساتھ وہ نماز كے احكام بھى جانتا ہو.

شيخ محمد صالح العثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

قولہ: " امامت كے ليے اولى اور بہتر وہ شخص ہے جو زيادہ قارى اور نماز كى سمجھ ركھتا ہو"

كيا زيادہ قارى سے مراد زيادہ اچھا پڑھنے والا جس كى قرآت مكمل ہو اور حروف كو مخرج سے ادا كرنے والا ہو، اور صحيح طريقہ سے ادا كرتا ہو، يا كہ زيادہ قرآت كرنے والا شخص مراد ہے ؟

جواب:

اس سے مراد يہ ہے كہ:

جو زيادہ اچھا پڑھتا ہو، يعنى جو تجويد كے ساتھ قرآت كرے، اس سے مراد وہ تجويد نہيں جو اس وقت غنہ اور مد وغيرہ سے معروف ہے، قرآن ميں اچھى آواز اور غنا شرط نہيں، اگرچہ اولى اور بہتر يہ ہے كہ اچھى آواز والا ہو ليكن يہ شرط نہيں.

قولہ: " نماز كى سمجھ ركھتا ہو "

يعنى جو شخص نماز كى فقہ كو سمجھتا ہو، وہ اس طرح كہ اگر نماز ميں كوئى غلطى وغيرہ ہو جائے تو اسے شرعى احكام پر تطبيق كر سكتا ہو..

يہ تو امامت كى ابتدا ميں ہے، يعنى اگر جماعت كا وقت ہو جائے اور وہ كسى شخص كو امامت كے ليے آگے كرنا چاہيں، ليكن اگر مسجد كا كوئى مستقل امام ہو اور اس ميں امامت كى ممانعت كى كوئى چيز نہ پائى جائے تو وہ ہر حالت ميں اولى اور مقتدم ہو گا.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 205 - 206 ) مختصرا

دوم:

اچھى قرآت كرنے والے شخص كو زيبا نہيں كہ وہ اپنے آپ كو چھپا كر ركھے، اور كسى ايسے شخص كو آگے كردے جو قرآت اچھى نہيں كرسكتا، كيونكہ اس ميں درج ذيل فرمان نبوى كى مخالفت ہے:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ان كى امامت وہ شخص كرائے جو كتاب اللہ كا زيادہ قارى ہو .... "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 673 ).

قولہ: " يؤم القوم "

طيبى رحمہ اللہ كہتے ہيں: يہ امر كے معنى ميں ہے، يعنى ان كى امامت وہ كرائے .

فتح البارى ميں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

يہ مخفى نہيں كہ زيادہ قارى كو آگے كرنا اس طرح ہے كہ وہ نماز كے حالات كى معرفت ركھتا ہو، ليكن اگر وہ اس سے جاہل ہو تو بالاتفاق آگے نہيں كيا جائيگا. انتہى

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب