منگل 23 جمادی ثانیہ 1446 - 24 دسمبر 2024
اردو

ماركيٹ ميں پہنچنے سے قبل ہى بيوپارى سے سامان خريدنے كى حرمت

43819

تاریخ اشاعت : 25-03-2007

مشاہدات : 4811

سوال

ماركيٹ ميں پہنچنے سے قبل ہى سڑك پر بيوپارى سے سامان خريدنے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سامان فروخت كرنے كے ليے تيار كردہ ماركيٹ اور منڈى ميں پہنچنے سے قبل بيوپارى سےمال خريدنا اور انہيں ملنا حرام ہے؛ كيونكہ يہ اس مسئلہ " الركبان " ميں شامل ہوتا ہے جس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منع فرمايا ہے.

مسند احمد ميں امام احمد رحمہ اللہ نے حديث نقل كى ہے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اور تم ماركيٹ ميں سامان اترنے سے قبل سامان كو مت ملو "

اور امام بخارى رحمہ اللہ نے اسے عبد اللہ بن عمر رضى اللہ عنہما سے روايت كيا ہے.

ديكھيں: صحيح بخارى ( 4 / 373 ).

اور امام بخارى رحمہ اللہ نے صحيح بخارى ميں نافع كے طريق سے عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ہم باہر سے آنے والے ( بيوپاريوں ) كو ملا كرتے اور ان سے غلہ خريد ليا كرتے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں اس سے منع فرما ديا حتى كہ وہ غلہ منڈى ميں پہنچ جائے "

اور نافع كے طريق سے عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى ايك حديث ميں يہ الفاظ ہيں:

" وہ بازار كى اوپر والى سائڈ پر خريدا كرتے تو وہ اسى جگہ فروخت كر ديتے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں كہيں اور منتقل كرنے سے قبل اسى جگہ پر فروخت كرنے سے منع كر ديا "

اور مسلم كى ايك روايت ميں ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم باہر سے سامان لے كر آنے والے قافلوں سے آگے جا كر نہ ملا كرو تو جو شخص بھى اسے ملا اور اس سے كوئى چيز خريد لى اور جب اس چيز كا مالك ماركيٹ اور منڈى ميں آئے تو اسے اختيار حاصل ہے "

اس بنا پر جب مال كا مالك شخص منڈى ميں نہ آئے جو اشياء فروخت كرنے كے ليے تيار ہوئى ہے تو مالكوں سے منڈى كے باہر ہى مل كر سواد طے كرنا حرام ہے، اور جو كوئى شخص بھى مال منڈى پہنچنے سے قبل ہى مل كر خريد لے وہ گنہگار اور اللہ تعالى كا نافرمان ہے، اگر اسے اس كے حرام ہونے كا علم ہو، كيونكہ اس ميں فروخت كرنے والے كے ساتھ دھوكہ اور فراڈ ہے، اور منڈى والے لوگوں كو نقصان ہے، اور جب يہ ثابت ہو جائے اور فروخت كرنے والے كو قيمت ميں دھوكہ كا علم ہو جائے تو مالك كو اختيار حاصل ہے كہ وہ اسى بيع كو جارى ركھے، يا پھر سودا منسوخ كر دے اور يہ دھوكہ اور غبن كے اختيار ميں داخل ہے " انتہى.

واللہ اعلم .

ماخذ: ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 132 )