الحمد للہ.
جمہور علماء كرام اس مسافت كى تحديد كرتے ہيں جس ميں مسافر جمع اور قصر كر سكتا ہے، ليكن بعض علماء كرام اس كى تحديد نہيں كرتے بلكہ يہ عرف اور عادت پر چھوڑتے ہيں، لوگوں كے ہاں جو سفر معروف ہو اس ميں قصر اور روزہ نہ ركھنے كى رخصت مشروع ہے.
جمہور علماء كے قول كے مطابق مسافت كى تحديد تقريبا اسى كلو ميٹر كا اندازہ لگايا گيا ہے.
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:
( جس سفر ميں سفر كى رخصت پر عمل كرنا مشروع ہے جسے عرف سفر شمار كرے، اس كى مسافت تقريبا اسى كلو ميٹر ہے، چنانچہ جو شخص اتنى يا اس سے زيادہ مسافت كا سفر كرے اس كے ليے سفر كى رخصتوں موزوں پر تين يوم مسح، نماز جمع اور قصر كرنا، اور رمضان ميں روزہ افطار كرنا، ان رخصتوں پر عمل كرنا مشروع ہے.
يہ مسافر اگر كسى شہر ميں چار دن سے زيادہ رہنے كى نيت كرے تو وہ سفر كى رخصت پر عمل نہيں كرے گا، اور جب وہ چار يا اس سے كم دن رہنے كى نيت كرے تو وہ سفر كى رخصتوں پر عمل كرسكتا ہے.
اور وہ مسافر جو كسى شہر ميں رہے اور اسے اپنى ضرورت ختم ہونے كا علم نہ ہو اور نہ ہى اس نے رہنے كى مدت متعين كى ہو تو وہ بھى سفر كى رخصت پر عمل كرے گا چاہے مدت جتنى بھى طويل ہو جائے، اس ميں سمندرى يا خشكى كے سفر كا كوئى فرق نہيں ) انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 99 ).
اس سے يہ معلوم ہوا كہ آپ مذكورہ مسافت ميں سفر كى رخصت پر عمل نہيں كر سكتے، كيونكہ يہ سفر كى مسافت تك نہيں پہنچتى.
واللہ اعلم .