الحمد للہ.
اول:
آپ كے ليے ضرورى ہے كہ مشت زنى جيسى برى عادت سے اللہ تعالى كے ہاں توبہ و استغفار كرتے ہوئے اسے ترك كرديں؛ اور بار بار گناہ كا ارتكاب كرنے كے انجام سے بچيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب بندہ كوئى گناہ كرتا ہے تو اس كے دل ميں ايك سياہ نقطہ پڑ جاتا ہے، اور جب وہ اس گناہ كو ترك كرتا اور اس سے توبہ كر ليتا ہے تو اس كا دل صاف ہو جاتا ہے، اور اگر وہ دوبارہ اس گناہ كو كرے تو يہ نقطہ اور زيادہ ہو جاتا ہے، حتى كہ اس كے سارے دل پر پھيل جاتا ہے، اور يہ وہى زنگ ہے جس كا اللہ تعالى نے ذكر كرتے ہوئے فرمايا ہے:
ہرگز نہيں بلكہ ان كے دلوں پر زنگ لگا ديا گيا ہے اس وجہ سے كہ جو كچھ وہ كيا كرتے تھے المطففين.
سنن ترمذى حديث نمبر ( 3257 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 4234 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 2654 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
آپ اس گندى عادت كو ترك كرنے كى كيفيت معلوم كرنے كے ليے سوال نمبر ( 329 ) كے جواب كا مطالعہ كر سكتے ہيں.
دوم:
جس شخص نے بھى احتلام يا جماع كے بعد غسل كيا اور غسل كے بعد بغير شہوت كوئى چيز خارج ہوئى تو اس كے ليے دوبارہ غسل كرنا ضرورى نہيں.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
فصل:
اگر كسى كو احتلام ہو جائے، يا اس نے جماع كيا اور منى خارج كى پھر غسل كر ليا، اور غسل كے بعد اس كى منى خارج ہوئى تو امام احمد سے مشہور يہى ہے كہ اس پر غسل نہيں.
خلال رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ: ابو عبد اللہ ـ يعنى امام احمد ـ سے تواتر كے ساتھ روايات ہيں كہ اسے صرف وضوء كرنا ہوگا، چاہے وہ پيشاب كرے يا نہ كرے، اور اسى پر ان كا قول برقرار ہے، اور على اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہم اور عطاء، زہرى، امام مالك، ليث، ثورى، اسحاق رحمہم اللہ سے بھى يہى مروى ہے، اور سعيد بن جبير كہتے ہيں: شہوت كے بغير اس پر غسل نہيں.
اس ميں ايك دوسرى روايت بھى ہے:
اگر پيشاب كے بعد خارج ہو تواس پر غسل نہيں، اور اگر پيشاب سے قبل خارج ہو تو غسل كرے، امام ابو حنيفہ، اور اوزاعى رحمہم اللہ كا قول يہى ہے، اور حسن رحمہ اللہ سے بھى يہى منقول ہے؛ كيونكہ يہ وہى باقى مانندہ پانى ہے جو شہوت اور چھلك كر نكلا تھا، اس ليے پہلے كى طرح غسل واجب كرے گا.
اور پيشاب كے بعد بغير شہوت اور بغير چھلكے نكلا ہے، ہميں علم نہيں كہ يہ پہلے سے ہى باقى مانندہ ہے؛ كيونكہ اگر يہ باقى مانندہ ہوتا تو پيشاب كے بعد تك باقى نہ رہتا.
اور قاضى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اس ميں ايك تيسرى روايت بھى ہے: اسے ہر حال ميں غسل كرنا ہوگا امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے؛ كيونكہ اس كا نكلنا بھى باقى خارج ہونے والى اشياء كى طرح شمار ہوگا.
اور ايك مقام پر كہتے ہيں: اس پر غسل نہيں، ايك ہى روايت ہے؛ كيونكہ يہ ايك ہى جنابت ہے چنانچہ اس ميں دو غسل واجب نہيں ہو سكتے جس طرح ايك ہى بار نكلے... انتہى.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 128 ).
اور صحيح يہى ہے كہ اگر منى شہوت كے ساتھ خارج ہو تو غسل واجب ہوگا، اور اگر شہوت كے بغير خارج ہو تو غسل واجب نہيں ہوتا جيسا كہ الانصاف اور كشاف القناع ميں ہے كہ:
" اگر غسل كے بعد اس كے انتقال سے منى خارج ہو " تو غسل واجب نہيں، يا " بغير انزال كيے جماع كر كے غسل كے بعد " منى بغير شہوت كے منى خارج ہو تو غسل واجب نہيں ہوتا " يا غسل كے بعد باقى مانندہ منى بغير شہوت كے خارج ہو " تو غسل واجب نہيں، كيونكہ سعيد ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كرتے ہيں كہ ان سے غسل جنابت كے بعد كچھ خارج ہونے كے متعلق دريافت كيا گيا تو وہ كہنے لگے: وہ وضوء كرے.
اور اسى طرح امام احمد رحمہ اللہ سے مروى ہے، اور اس ليے بھى كہ منى ايك ہے اور غسل بھى ايك ہى واجب ہوگا، جس طرح كہ ايك ہى بار خارج ہو، اور اس ليے بھى كہ بغير شہوت خارج ہوئى ہے تو يہ سردى كى وجہ سے خارج ہونے كے مشابہ ہوئى، امام احمد نے اس كى علت بيان كرتے ہوئے كہا ہے: كيونكہ پہلى شہوت تھى، يہ حدث ہے اور ميں اميد كرتا ہوں كہ اس سے وضوء كفائت كرےگا" انتہى.
ديكھيں: الانصاف ( 1 / 232 ) اور كشاف القناع ( 1 / 141 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
قولہ: اگراس كے بعد خارج ہو تو وہ اسے دوبارہ نہيں كرےگا "
يعنى: اگر وہ منى كے انتقال كى بنا پر غسل كرے اور پھر حركت كرنے سے منى خارخ ہو جائے تو وہ دوبارہ غسل نہيں كرے گا، اس كى دليل يہ ہے كہ:
1 - سبب ايك ہے، اس ليے دو غسل واجب نہيں ہو سكتے.
2 - جب اس كے بعد خارج ہو تو لذت كے بغير خارج ہوگى، اور جب لذت كے بغير خارج ہو تو غسل واجب نہيں ہوتا.
ليكن اگر كسى وجہ سے لذت كے ساتھ اور منى خارج ہو تو اس دوسرے سبب كى بنا پر اس پر غسل واجب ہوگا. انتہى.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 281 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 12352 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
سوم:
غسل جنابت ميں مشروع ہے كہ جسم پر جو منى وغيرہ لگى ہو اسے دھويا جائے، اور پھر وضوء كے اعضاء كو دھو كر غسل شروع كيا جائے، پھر سارے جسم پر پانى بہائيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے غسل كا طريقہ اسى طرح ثابت ہے:
ميمونہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے غسل كے ليے پانى ركھا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے دائيں ہاتھ سے بائيں ہاتھ پر پانى ڈال كر دھويا پھر اپنى شرمگاہ دھوئى پھر اپنے ہاتھ زمين پر رگڑے اور مٹى لگا كر دھوئے، پھر كلى كى اور ناك ميں پانى ڈالا پھر اپنا چہرہ دھويا اور اپنے سر پر پانى بہايا، پھر اس جگہ سے ہٹ كر اپنے پاؤں دھوئے، پھر آپ كے پاس توليہ لايا گيا ليكن آپ نے اس سے جسم خشك نہ كيا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 251 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 476 ).
اور اگر آپ نے كوئى نجاست وغيرہ دور كى تو اس سے آپ كا غسل باطل نہيں ہوگا، كيونكہ غسل ميں واجب تو يہ ہے كہ سارے جسم پر پانى بہايا جائےـ صحيح يہ ہے كہ اس كے ساتھ كلى بھى كى جائے اور ناك ميں پانى بھى چڑھايا جائے ـ اور نيت كى غسل ہو، ناپاكى يعنى حدث دور كرنے كى شروط ميں نجاست كو نہ چھونے كى شرط نہيں ہے.
واللہ اعلم .