الحمد للہ.
الحمدللہمسلمان بہن کے علم میں ہونا چاہیے کہ جوشخص مکمل نمازوں کی ادائيگي نہیں کرتا اوروہ عدم ادائيگي پر مستمر ہے ، توایسا شخص صحابہ کرام اوراکثر اہل علم کے ہاں کافر شمار ہوتا ہے اس سے نکاح کرنا اوراس کا ذبیحہ کھانا بھی جائز نہیں ، تواس طرح جب خاوند مطلقابے نماز ہو توبلاشبہ وہ بہت بڑے خطرہ میں ہے اوراس کے ساتھ باقی رہنا جائز نہيں ۔
اسے اس سے ڈرانا اورخوف دلانا ضروری اورواجب ہے اورصحیح یہی ہے کہ اس سے ہم بستری بھی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس سے رکنا ہی صحیح ہے ، حتی کہ وہ نمازکی ادائيگي کرنا شروع کردے ، کیونکہ بے نماز کافر شمار ہوتا ہے ، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے :
جابررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( بندے اورشرک وکفر کے مابین حد فاصل نماز ترک کرنا ہے ) صحیح مسلم ۔
اورایک دوسری حدیث میں ہے :
( ہمارے اوران ( کافروں ) کے درمیان معاھدہ نماز کا معاھدہ ہے جس نے بھی نماز تر ک کردی اس نے کفر کا ارتکاب کیا ) ۔
عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ تعالی بیان کرت ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نماز کے علاوہ کسی بھی عمل کے ترک کرنے کوکفر شمار نہیں کرتے تھے ۔
تواس لیے واجب اورضروری ہے کہ خاوند کواس فعل سے خوف دلایا جائے اگروہ پھر بھی اس پر اصرار کرتا ہے تواس وقت خاوند کے ساتھ باقی رہنا جائز نہیں اس لیے کہ آپ دین اسلام پر ہیں اوروہ دین اسلام پر نہیں ۔
اللہ سبحانہ وتعالی مسلمانوں کو اللہ تعالی کے احکام کی بجاآوری اوراپنی اطاعت کی توفیق عطا فرمائے ، آپ کوچاہیے کہ خاوند کو وعظ ونصیحت کرتی رہیں اوراسے اللہ تعالی کا خوف دلائيں ہوسکتا ہے اللہ تعالی اسی میں خير وبھلائي پیدا کردے ۔
واللہ اعلم.