منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

اگر كسى كو دن كے آخر ميں احتلام كا علم ہو تو وہ كيا كرے ؟

45556

تاریخ اشاعت : 27-08-2006

مشاہدات : 7018

سوال

مجھے ايك دفعہ احتلام ہوا اور ميں فجر كى نماز كے ليے اٹھا تو مجھ اس كے متعلق كچھ ياد نہ تھا، كيونكہ لباس ميں موجود نمى كى طرف دھيان نہ رہا اس ليے كہ وہ خشك ہو چكى تھى، ميں نے اس روز سب فرضى نمازيں جنابت كى حالت ميں ہى ادا كيں، اور شام كے وقت مجھے ياد آيا كہ مجھے تو احتلام ہوا تھا، يہ بھى اس وقت جب ميں نے اپنے زير جامہ لباس پر نمى كے اثرات ديكھے تو پھر ياد آيا، اور غسل كرنے كے بعد سارى نمازيں دوبارہ ادا كيں، كيا ميرا يہ فعل صحيح ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جى ہاں آپ كا يہ فعل صحيح اور شريعت كے موافق ہے، نماز صحيح ہونے كے ليے طہارت و پاكيزگى شرط ہے، اور جنابت سے غسل واجب ہو جاتا ہے، آپ نے جنابت كى حالت ميں جو نمازيں ادا كيں اس ميں آپ معذور تھے كيونكہ آپ نے ايسا عمدا اور جان بوجھ كر نہيں كيا.

ليكن آپ كو اس كا علم ہونے كے بعد غسل كر كے نمازيں دوبارہ ادا كر كے اس سے برى الذمہ ہو سكتے تھے، اور آپ نے ايسا ہى كيا، اور صحيح بھى يہى ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ايك شخص نے نماز فجر ادا كر لينے كے بعد اپنے لباس ميں منى كے اثرات پائے، اس معاملہ ميں كيا حكم ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى نے جواب ديا:

" اگر انسان نماز فجر كے بعد سويا نہيں تو اس كى نماز فجر صحيح نہيں كيونكہ اس نے وہ نماز جنابت كى حالت ميں ادا كى ہے، كيونكہ اسے يقين ہے كہ يہ منى نماز سے قبل كى ہے.

ليكن اگر انسان نماز فجر كے بعد سويا تھا اور اسے يہ علم نہيں كہ يہ نماز سے قبل والى نيند ميں ہوا يا كہ نماز فجر كے بعد والى نيند ميں، تو اس ميں اصل يہ ہے كہ نماز فجر كى بعد والى نيند ميں احتلام ہوا ہے، اور اس كى نماز صحيح ہو گى.

اور اسى طرح اس شخص كا حكم بھى يہى ہو گا جس نے لباس پر منى كے آثار ديكھے اور اسے يہ شك ہو كہ آيا يہ پچھلى رات كا ہے، يا اس سے بھى پہلى رات كا، تو وہ اسے قريب تر سونے والى رات بنائے؛ كيونكہ يہ يقينى ہے، اوراس سے قبل والى مشكوك، اور حدث ميں شك طہارت كو واجب نہيں كرتا، اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تم ميں سے كوئى اپنے پيٹ ميں كچھ گڑبڑ پائے اور اسے يہ اشكال ہو كہ آيا اس سے كچھ خارج ہوا ہے يا نہيں، تو وہ مسجد سے مت نكلے "

اسے امام مسلم رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 11 / سوال نمبر 165 ).

اور اسى طرح شيخ رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال بھى دريافت كيا گيا:

ايك شخص نے مغرب اور عشاء كى نماز ادا كى اور اپنے گھر واپس آگيا اور جب لباس اتارا تو زيرجامہ لباس ميں منى كے آثار ديكھے تو اس پر كيا لازم آتا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اگر تو اس شخص جس نے اپنے لباس پر منى كے آثار ديكھے غسل نہيں كيا تو اس پر غسل كر كے جنابت كى حالت ميں ادا كردہ نمازيں دوبارہ ادا كرنا واجب ہيں.

ليكن بعض اوقات انسان لباس پر منى كے آثار تو ديكھتا ہے، ليكن اسے يہ معلوم نہيں كہ يہ اس سے قبل والى رات سے ہے يا كب ؟ تو كيا وہ اسے قريب ترين رات كا شمار كرے يا اس سے قبل والى رات سے ؟

اس كا جواب يہ ہے كہ:

وہ اسے پچھلى قريب ترين رات سے شمار كرے، كيونكہ اس سے قبل والى رات ميں شك ہے، اور اصل طہارت ہے، اور اسى طرح اگر وہ نماز فجر كے بعد سو جائے، اوربيدار ہونے كے بعد اپنے لباس ميں جنابت كا اثر ديكھے اور اسے يہ علم نہ ہو كہ نماز فجر كے بعد والى نيند سے ہے يا كہ نماز سے پہلے والى نيند سے، تو كيا اسے نماز فجر لوٹانا ہو گى ؟

اس كا جواب يہ ہے:

اس پر نماز فجر كا اعادہ لازم نہيں؛ كيونكہ رات كى نيند ميں احتلام كا ہونا مشكوك ہے، اور اسى طرح آپ اپنے ذہن ميں يہ قاعدہ اور اصول ركھيں كہ:

آپ كو جب بھى يہ شك ہو كہ آيا يہ پہلى نيند سے ہے يا اب والى نيند سے تو اسے اب والى نيند سے قرار دو.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 11 / سوال نمبر 166 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب