الحمد للہ.
سودى معاملات كرنے كبيرہ گناہ ميں شامل ہوتا ہے، كتاب اللہ اور سنت نبويہ ميں اس كى حرمت بيان ہوئى ہے، اور مسلمانوں كا اجماع بھى اس كى حرمت پر دلالت كرتا ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور اللہ تعالى نے خريد و فروخت حلال كى اور سود كو حرام كيا ہے البقرۃ ( 275 ).
اور ايك دوسرے مقام پر كچھ اس طرح فرمايا:
.... اور باقى مانندہ سود چھوڑ دو اگر تم سچے مومن ہو، اور اگر تم ايسا نہيں كروگے تو پھر اللہ تعالى اور اس كے رسول كى طرف سے اعلان جنگ ہے، اور اگر تم توبہ كر لو تو تمہارے اصل مال تمہارے ليے ہيں، نہ تو تم ظلم كرو اور نہ ہى تم پر ظلم كيا جائے البقرۃ ( 279 ).
اور حديث ميں ہے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود لينے، اور سود دينے، اور سود لكھنے، اور سود كى گواہى دينے والوں پر لعنت فرمائى، اور فرمايا: يہ سب برابر ہيں "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1598 ).
حكومتى پروگرام ميں آپ كے ليے شامل ہونا لازم نہيں ہے تو پھر اس كے نتيجہ ميں يہ لازم آتا ہے كہ آپ كے ليے سودى قر ض حاصل كرنا بھى كوئى ضرورى نہيں تا كہ آپ كاشت كارى كر سكيں.
اور كاشت كارى كے معاملہ ميں آپ پر تنگى، اور سودى قرض ضرورى حاصل كرنے كى حالت ميں آپ پر لازم آتا ہے كہ آپ رزق حلال كے ليے كوئى اور طريقہ تلاش كر ليں، اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے الطلاق ( 2 ).
اور دنياوى نقصان اور ضرر آخرت كے نقصان كے برابر نہيں ہو سكتا دنياوى كام ميں خسارہ اور نقصان دين كے خسارہ اور نقصان سے بہت ہلكا اور كم ہے.
اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنے مومن بندوں كو وہى حكم ديا ہے جو اپنے رسولوں كو حكم ديا كہ وہ رزق حلال كى تلاش كريں اور پاكيزہ اشياء كھائيں، اللہ تعالى كا فرمان ہے
اے رسولو! حلال چيزيں كھاؤ اور نيك و صالح عمل كرو، تم جو عمل كر رہے ہو ميں اس سے بخوبى واقف ہوں المؤمنون ( 51 ).
اللہ سبحانہ وتعالى نے نبيوں اور مومنوں كو خطاب كرنے ميں برابر ركھتے ہوئے انہيں حلال كھانے اور حرام سے اجتناب كرنے كا حكم ديا، اور پھر سب اس وعيد ميں شامل كيے جو اللہ تعالى كے اس فرمان ميں پائى جاتى ہے:
يقينا ميں اس سب سے واقف ہوں جو تم عمل كر رہے ہو .
قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اللہ تعالى اپنے رسولوں اور انبياء پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے، اور اگر ان كے ساتھ يہ معاملہ ہے تو پھر آپ كے خيال ميں سب لوگوں كے ساتھ كيسا معاملہ ہو گا ؟
ديكھيں: تفسير قرطبى ( 12 / 128 ).
اور شريعت مطہرہ نے بھى ہميں حلال روزى كما كر كھانے كى ترغيب دلائى اور حرام ترك كرنے پرابھارا اور اس كا حكم ديا ہے، اور ہميں يہ بتايا ہے كہ ہمارا رب تعالى وہى رزق دينے والا اور بڑى طاقت و قوت والا ہے، جسے چاہتا ہے بغير حساب روزى ديتا ہے.
جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم رزق تلاش كرنے ميں سستى و كاہلى نہ دكھاؤ، كيونكہ كوئى بھى بندہ اس وقت تك نہيں مرےگا جب تك وہ اپنا آخرى رزق نہ كھا لے، تو اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو، اور حلال حاصل كركے اور حرام ترك كر كے روزى تلاش كرنے ميں بہترى دكھاؤ "
صحيح ابن حبان ( 8 / 32 ) مستدرك الحاكم ( 2 / 4 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 2607 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
واللہ اعلم .