منگل 25 جمادی اولی 1446 - 26 نومبر 2024
اردو

كيا شہد ميں زكاۃ ہے ؟

سوال

كيا شہد ميں زكاۃ واجب ہو گى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بعض علماء كرام ـ جن ميں امام احمد رحمہ اللہ شامل ہيں ـ كہتے ہيں كہ شہد ميں زكاۃ ہے، انہوں نے مندرجہ ذيل دلائل سے استدلال كيا ہے:

1 - عمرو بن شعيب عن ابيہ عن جدہ عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ وسلم نے شہد ميں عشر ليا تھا"

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1824 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے حسن صحيح كہا ہے.

2 - سليمان بن موسى ابو سيارہ المتعى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: ميرے پاس شہد كى مكھياں ہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اس كا عشر ادا كرو"

ميں نے عرض كيا: اسے ميرے ليے محفوظ كر ديں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وہ مجھے دے ديا" يعنى ميرى عطا كرديا،

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1823 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے حسن لغيرہ كہا ہے.

ابن ماجہ كے حاشيہ ميں سندى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" زوائد ميں ہے: ابن ابى حاتم نے اپنے والد سے كہتے ہيں: سليمان بن موسى كى ابو سيارہ سے ملاقات نہيں ہوئى، اور حديث مرسل ہے، امام ترمذى رحمہ اللہ نے اس حديث كے بعد علل ميں بخارى رحمہ اللہ تعالى سے بيان كيا ہے كہ يہ حديث مرسل ہے، پھر كہتے ہيں: سلمان نے كسى بھى صحابى كو نہيں پايا" انتہى

3 - عمرو بن شعيب عن ابيہ عن جدہ بيان كرتے ہيں كہ: بنى متعان ميں سے ايك شخص ہلال رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس شھد كا عشر لايا، جس كے بارہ ميں اس نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو كہا تھا كہ وہ ايك وادى اس كے مخصوص كرديں جسے اس نے حاصل كيا تھا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اس وادى كو اس كے ليے مخصوص كر ديا تھا اور جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ مسند خلافت پر بيٹھے تو سفيان بن وھب نے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كو اس كے متعلق دريافت كرتے ہوئے خط لكھا: تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اس كے جواب ميں لكھا:

آپ جو عشر رسول كريم صلى اللہ عليہ كو ديا كرتے تھے، وہ ديا كرو ميں بھى تمہارے ليے اسے مخصوص كر دونگا، وگرنہ وہ بارش كى مكھى ہے جو چاہے اسے كھائے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 1600 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اور عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ تعالى سے بھى يہ بيان كيا گيا ہے، ليكن صحيح يہى ہے كہ اس ميں زكاۃ نہيں ہے.

امام احمد رحمہ اللہ تعالى سے سوال كيا گيا كہ:

آپ شہد ميں زكاۃ كے قائل ہيں ؟

تو انہوں نے جواب ديا:

جى ہاں ميں كہتا ہوں كہ شہد ميں عشر ہے، اور عمر رضى اللہ تعالى نے بھى اس ميں زكاۃ لى تھى.

ميں نے كہا: انہوں نے خود ہى دى تھى ؟

ان كا جواب تھا: نہيں، بلكہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے ان سے لى تھى.

ديكھيں: المغنى لابن قدامۃ القدسى ( 4 / 183 - 184 ).

اور جمہور اہل علم جن ميں امام مالك، اور امام شافعى رحمہما اللہ تعالى شامل ہيں كا كہنا ہے كہ شہد ميں زكاۃ نہيں ہے، اور اس سلسلے ميں وارد شدہ آثار جو اس ميں زكاۃ كو واجب قرار ديتے ہيں انہيں ضعيف قرار ديا ہے، اور جو آثار صحيح ہيں انہيں اس پر محمول كرتے ہيں كہ شہد ميں جو ( عشر ادا كيا گيا ) وہ حفاظت كے مقابلہ ميں ادا كيا گيا، جيسا كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے وارد شدہ حديث ميں ظاہر ہوتا ہے.

امام بخارى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" جارى پانى اور آسمان سے سيراب كردہ ميں عشر كے متعلق باب، اور عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ تعالى شھد ميں كچھ بھى نہيں مقرر كرتے تھے"

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى فتح البارى ميں كہتے ہيں:

" ابن ابى شيبہ نے عبد الرزاق سے نافع مولى ابن عمر سے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے وہ كہتے ہيں:

" عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ نے مجھے يمن بھيجا تو ميں نے شہد ميں عشر لينا چاہى تو مغيرہ بن حكيم الصنعانى كہنے لگے:

اس ميں كچھ نہيں ہے، تو ميں نے عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ كو خط لكھا تو انہوں نے كہا:

اس نے سچ كہا ہے، وہ عدل رضا ہے، اس ميں كچھ نہيں.

اور عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ تعالى سے اس كے مخالف بھى بيان كيا جاتا ہے جو عبد الرزاق نے روايت كيا ہے، اور اس كى سند ضعيف ہے، اور پہلى روايت زيادہ صحيح ہے، لگتا ہے كہ امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے اس روايت: ( شھد ميں عشر ہے ) كے ضعيف ہونے كى طرف اشارہ كيا ہے.

اور امام بخارى اپنى كتاب: التاريخ " ميں كہتے ہيں: شھد ميں زكاۃ كے متعلق كچھ بھى صحيح نہيں.

اور امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس باب ميں كچھ بھى صحيح نہيں ہے.

اور امام شافعى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

حديث: ( زكاۃ ميں عشر ہے ) يہ ضعيف ہے.

اور ابن منذر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

شہد كے متعلق كوئى بھى خبر ثابت نہيں، اور نہ ہى اجماع كا ثبوت ہے اس ليے اس ميں زكاۃ نہيں ہے، اور جمہور كا قول يہى ہے" انتہى مختصرا

اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ كا يہ قول:

اگر اس نے اپنے شہد كا عشر تجھے ديا جو وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ديا كرتا تھا، تو اس كے سلب كى حفاظت كرو"

يہ اس كى دليل ہے كہ انہوں نے جو كچھ ليا تھا وہ زكاۃ نہيں، بلكہ وہ تو حفاظت كے عوض ميں ہے.

اور ابن مفلح حنبلى رحمہ اللہ تعالى اپنى كتاب " الفروع " ميں شہد ميں زكاۃ كے وجوب كے قائلين كے دلائل كا ذكر كيا اور ان پر كلام كى ہے جو ان كے ضعيف ہونے كا علم ديتے ہيں، پھر انہوں يہ كہا ہے كہ:

" اور جس نے يہ اور كسى دوسرے نے غور كيا تو اسے اس مسئلہ كے كمزور اور ضعيف ہونے كا علم ہو گا " انتہى

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا كہ كيا شہد ميں زكاۃ ہے ؟

تو ان كا جواب تھا:

صحيح يہ ہے كہ شہد ميں زكاۃ نہيں ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے وارد نہيں، بلكہ يہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے وارد ہے كہ انہوں نے شہد والى جگہوں كى حفاظت كى اور اس پر عشر ليا.

تو اس بنا پر شہد ميں زكاۃ واجب نہيں، ليكن اگر انسان اپنى طرف سے نكالے تو يہ خير و بھلائى ہے، اور ہو سكتا ہے يہ اس كے شہد ميں زيادتى كا باعث اور سبب بن جائے، ليكن يہ كہ يہ لازم ہے، اور اسے نہ دينے پر انسان گنہگار ہو گا، اس كى كوئى دليل نہيں ملتى" انتہى

ديكھيں: فتاوى الزكاۃ صفحہ نمبر ( 87 ).

اور مستقل فتوى كميٹى سے سوال كيا گيا كہ كيا شہد كى مكھيوں سے حاصل كردہ شہد ميں زكاۃ ہے يا نہيں ؟

تو كميٹى كا جواب تھا:

" شہد كى مكھيوں كے ذريعہ حاصل كردہ شہد ميں كوئى زكاۃ نہيں بلكہ اس كى قيمت ميں اس وقت زكاۃ ہو گى جب وہ فروخت كرنے كے ليے ہو اور اس پر سال مكمل ہو جائے اور نصاب كى قيمت كو پہنچے، اور اس ميں دس كا چوتھا حصہ ہے.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 226 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب