جمعہ 19 جمادی ثانیہ 1446 - 20 دسمبر 2024
اردو

متعدى بيمارى كے مريض سے شادى كرنا

46517

تاریخ اشاعت : 30-03-2010

مشاہدات : 6708

سوال

اگر كوئى مسلمان عورت كسى متعدى بيمارى " ہربس " كے شكار شخص سے شادى كرنا چاہے تو اس كا حكم كيا ہے، وہ شخص جنسى بيمارى كا شكار ہے ليكن دينى اور اخلاقى اعتبار سے اس ميں كوئى حرج نہيں، جوانى كى ابتدائى عمر ميں اس سے غلطياں ہوئيں اور بعد ميں اس نے توبہ كر لى اور دوبارہ اس پر عمل نہيں كيا، كيا اگر ميں اس سے دينى بنا پر شادى كروں اور ہم اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى كرتے رہيں تو كيا اللہ مجھے اس بيمارى سے محفوظ ركھے گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شريعت ميں وارد ہے كہ مسلمان شخص اپنے آپ كى مصيبت ميں ڈالنے سے اجتناب كرے اور كسى متعدى بيمارى كے مريض سے اختلاط ركھنا بھى اسى ميں شامل ہوتا ہے، خاص كر اگر يہ بيمارى خطرناك اور دائمى ہو مثلا ايڈز اور ہربس وغيرہ.

شريعت اسلاميہ نے ہر مريض اور صحيح و تندرست شخص ميں سے ہر ايك كو خطاب كيا ہے جيسا كہ درج ذيل حديث ميں وارد ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ نے فرمايا:

" صحيح اونٹ والا شخص اپنا اونٹ صحيح اونٹ والے كے پاس نہ لائے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2221 ).

ممرض: بيمارى اور مريض اونٹ والا.

مصح: صحيح و تندرست اونٹ كا مالك.

حديث كا معنى يہ ہوا كہ بيمارى اونٹ والا اپنے اونٹ لے كر صحيح اور تندرست اونٹ والے كے پاس مت جائے تا كہ متعدى بيمارى ان ميں بھى منتقل نہ ہو.

اور صحيح و تندرست شخص كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خطاب كرتے ہوئے فرمايا:

" تم جذام اور كوڑھ والے مريض سے اس طرح بھاگو جس طرح شير سے دور بھاگتے ہو "

مسند احمد حديث نمبر ( 9429 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 7530 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

جذام كى بيمارى كا متعدى ہونا معروف ہے اللہ سبحانہ و تعالى سب كو سلامتى و عافيت سے نوازے.

اور امام مسلم رحمہ اللہ نے عمرو بن الشريد سے بيان كيا ہے وہ اپنے باپ سے بيان كرتے ہيں كہ:

" قبيلہ ثقيف كے وفد ميں ايك شخص جذام كا مريض تھا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كو پيغام بھيجا كہ " تم ہم سے بيعت كر چكے ہو لہذا واپس چلے جاؤ "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2231 ).

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جذام كے اس مريض كى طرف بيعت كا پيغام اس ليے بھيجا كہ اذيت و مكروہ كے اسباب سے فرار ہونا مشروع ہے، اور بندہ كسى آزمائش و ابتلاء كے اسباب كے سامنے خود نہ آئے " اھـ

ديكھيں مفتاح دار السعادۃ ( 2 / 272 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ " زاد المعاد " ميں لكھتے ہيں:

" متعدى بيمارى سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا اجتناب و احتراز كرنے كے طريقہ كے متعلق فصل، اور آپ متعدى مرض والے مريض سے صحيح و تندرست شخص كو عليحدہ رہنے كى راہنمائى كے متعلق آپ كا طريقہ.

ديكھيں: زاد المعاد ( 4 / 147 ).

ہو سكتا ہے آپ كا اس متعدى بيمارى والے شخص جسے جنسى بيمارى ہربس لگى ہے سے شادى كرنا ہمدردى كے باعث ہے اور آپ خيال كرتى ہوں كہ اس پر صبر و تحمل كر سكتى ہيں ليكن اگر بعد ميں آپ كو بھى بيمارى لگ گئى تو آپ نادم ہونگى ليكن اس وقت ندامت كا كوئى فائدہ نہيں ہو گا، اور سلامتى كے برابر كى كوئى چيز نہيں ہے.

لہذا ہمارى نصيحت تو يہى ہے كہ آپ اس شخص سے شادى مت كريں.

اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو نيك و صالح اور تندرست خاوند عطا فرمائے جو آپ كے دينى امور ميں ممد و معاون ثابت ہو.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب