الحمد للہ.
جب نمازى دوران نماز مسجد ميں داخل ہو تو اسے امام كے ساتھ ملنا چاہيے چاہے امام كسى بھى حالت ميں ہو؛ ركوع ميں ہويا سجدہ ميں يا پھر سجدوں كے درميان بيٹھا ہو؛ اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم نماز كے ليے آؤ اور ہم سجدہ كى حالت ميں ہوں تو سجدہ ميں چلے جاؤ، اور اسے كچھ شمار نہ كرو، اور جس نے ركعت پالى اس نے نماز حاصل كرلى"
سنن ابو داود حديث نمبر ( 893 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح ابو داود ميں حسن قرار ديا ہے.
ابو قتادہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم نماز كے ليے آؤ تو سكون اور وقار كے ساتھ آؤ، جو ملے اسے ادا كرو، اور جو رہ جاؤ اسے پورا كرلو"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 635 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى " فتح البارى " ميں لكھتے ہيں:
اس سے استدلال كيا گيا ہے كہ نماز امام كے ساتھ ملے چاہے امام كسى بھى حالت ميں ہو" انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 2 / 118 ).
اور معاذ بن جبل رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں كوئى نماز كے ليے آئے اور امام كسى حالت ميں ہو تو وہ بھى اسى طرح كرے جو امام كر رہا ہو "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 591 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
جب امام نماز پڑھا رہا ہو تو مسجد ميں داخل ہونے والے شخص كے ليے مندرجہ بالا نصوص كى روشنى ميں يہى سنت ہے.
ابن حزم رحمہ اللہ تعالى نے اس پر اجماع نقل كرتے ہوئے كہا ہے:
" ان اس پر اتفاق ہے كہ جو شخص مسجد ميں آئے اور امام نماز كا كچھ حصہ ادا كر چكا ہو زيادہ ہو يا كم اور صرف سلام پھيرنا بھى باقى بچا ہو اسے امام كے ساتھ ملنے، اور اس نے جس حالت ميں امام كو پايا اس كى موافقت كرنے كا حكم ہے، جبكہ اسے يقين ہو كہ وہ كسى اور مسجد ميں جماعت حاصل نہيں كر سكتا" انتہى
ديكھيں: مراتب الاجماع صفحہ نمبر ( 25 ).
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى " المغنى " ميں كہتے ہيں:
" امام كى كسى بھى حالت ميں پانے والے كے ليے اس كى متابعت كرنى مستحب ہے، چاہے وہ اس كے ليے شمار نہ بھى ہو....
پھر انہوں نے بعض مندرجہ بالا احاديث ذكر كرنے كے بعد كہا ہے: اہل علم كے ہاں عمل اسى پر ہے، ان كا كہنا ہے: جب كوئى شخص مسجد ميں آئے اور امام سجدہ كى حالت ميں ہو تو اسے بھى سجدہ كرنا چاہيے، ليكن يہ سجدہ اس كى ركعت نہيں بنے گا.
اور بعض كا كہنا ہے: ہو سكتا ہے وہ سجدہ سے سر نہ بھى نہ اٹھائے اور اسے بخش ديا جائے " انتہى
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 2 / 184 ).
بعض لوگ ايسے بھى ہيں جو مسجد ميں داخل ہوں تو امام سجدہ يا پھر دو سجدوں كے درميان بيٹھا ہوتا ہے ليكن وہ امام كے ساتھ شامل نہيں ہوتے حتى كہ امام دوسرى ركعت كے ليے كھڑا نہ ہو جائے، يا پھر اسے پتہ چلے كہ وہ تشھد ميں ہے تو اس كے ساتھ بيٹھ جاتا ہے، اس شخص نے اپنے آپ كو سجدہ كى فضيلت اور اجروثواب سے محروم ركھا، اور اس كے ساتھ مندرجہ بالا دلائل كى بھى مخالفت كى.
تحفۃ الاحوذى ميں مباركپورى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
قولہ: " تو جس طرح امام كر رہا ہو وہ بھى اسى طرح كرے "
يعنى: وہ جس امام كے قيام يا ركوع وغيرہ كى حالت ميں ہونے پر امام كى موافقت كرے، اور امام كے كھڑا ہونے كا انتظار مت كرے، جيسا كہ عام لوگ كرتے ہيں" انتہى
ديكھيں: تحفۃ الاحوذى ( 2 / 199 ).
ديكھيں: احكام حضور المساجد صفحہ نمبر ( 138 - 139 ) تاليف: عبد اللہ بن صالح الفوزان.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ايك شخص مسجد ميں داخل ہوا تو امام آخرى ركعت ميں تھا، كيا وہ امام كے ساتھ مل جائے يا كہ ان كے فارغ ہونے كا انتظار كرے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
" اس طرح كى حالت ميں آپ كو ان كے ساتھ ملنا چاہيے، آپ كو جو نماز ملے وہ ان كے ساتھ ادا كريں، اور جو رہ جائے اسے بعد ميں مكمل كرليں، اور اگر آپ جماعت كے ساتھ آخرى ركعت ميں ركوع سے اٹھنے كے بعد مليں، تو بھى ان كے ساتھ مل جائيں اور امام كى سلام كے بعد اٹھ كر سارى نماز پڑھيں.
پھر انہوں نے مندرجہ بالا احاديث سے استدلال كيا ہے" انتہى.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام يہ سوال بھى دريافت كيا گيا:
اگر كوئى شخص مسجد ميں داخل ہو اور امام آخرى تشھد ميں ہو تو كيا اس كے ساتھ ملنا افضل ہے يا كہ انتظار كرے تا كہ بعد ميں دوسرے آنے والوں كے ساتھ مل كر جماعت كروائے ؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" افضل يہ ہے كہ آپ امام كے ساتھ مل جائيں؛ كيونكہ عمومى طور پر حديث ميں ہے:
" تم جو پاؤ اسے پڑھ لو، اور جو رہ جائے وہ بعد ميں پورى كرلو" انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 312 - 323 )
واللہ اعلم .