سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

كفار كا چورى كردہ مال واپس كرنا

47086

تاریخ اشاعت : 30-07-2007

مشاہدات : 6094

سوال

ميں نے ان آخرى ايام ميں نماز كى ادائيگى شروع كردى ہے، اور ماضى ميں كيے ہوئے برے اعمال ترك كرنے كى كوشش كر رہا ہوں، اور مجھے علم ہے كہ توبہ كى شروط ميں شامل ہے كہ مسلمانوں كو ان كے حقوق واپس كرنا ضرورى ہيں، تو غير مسلموں كے حقوق كے متعلق كيا حكم ہے ؟
مجھے كہا گيا ہے كہ اس طرح كے لوگ جو اسلام قبول كرنے سے انكار كرتے ہيں، انہيں كوئى عزت و تكريم اور حرمت حاصل نہيں، تو اگر ميں نے كسى غير مسلم كى چورى كى ہو تو كيا ميرے ذمہ اس كا مال واپس كرنا واجب ہے، يہ علم ميں رہے كہ اس بنا پر مجھے غير مسلموں كى جانب سے تنگى اور مشكلات كا سامنا كرنا پڑےگا، ميں نے غير مسلموں كى جو اشياء غصب كى ہيں مجھے ان كا كيا كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہم آپ كو نماز كى پابندى كرنے اور توبہ كى كوشش پر مباركباد ديتے ہيں، اور آپ كو خوشخبرى ديتے ہيں كہ اللہ سبحانہ وتعالى توبہ كرنے والے كى توبہ قبول كرتا اور اس كے گناہ بخش ديتا ہے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" توبہ كرنے والا ايسے ہى ہے جس طرح كسى شخص كا كوئى گناہ نہ ہو "

اسے امام ترمذى نے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے حسن قرار ديا ہے.

دوم:

اس ميں كوئى شك نہيں كہ چورى كبيرہ گناہوں ميں سے ايك كبيرہ گناہ ہے، اور اس پر اللہ تعالى نے دنيا ميں حد لگائى ہے، اور آخرت ميں شديد قسم كى سزا ركھى ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور چور كرنے والے مرد اور چورى كرنے والى عورت كا ہاتھ كاٹ دو، يہ ان كے اعمال كا بدلہ اور جزا اور اللہ تعالى كى جانب سے عبرت ہے، اور اللہ تعالى غالب و حكمت والا ہے المآئدۃ ( 38 ).

اور حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اللہ تعالى نے چور پر لعنت فرمائى ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6783 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1687 ).

اور پھر چورى كرنا حرام ہے، چاہے كسى مسلمان كى چورى كى جائے يا پھر كافر كى، ان كا مال و جان معصوم و محفوظ ہے، ليكن جو كافر محارب ہو يعنى مسلمانوں كے خلاف لڑائى كرے اس كا مال لينا جائز ہے، كيونكہ يہ لڑائى كى حالت ميں غنيمت شمار ہوگا نا كہ چورى شمار ہوگى.

سوم:

رہا يہ مسئلہ كہ كفار كا مال دھوكہ اور فراڈ سے حاصل كرنا تو يہ حرام ہے، كيونكہ اسلام ميں دھوكہ حرام ہے، چاہے وہ مسلمان كے ساتھ ہو يا كافر كے ساتھ.

امام بخارى رحمہ اللہ نے مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى سے روايت كيا ہے كہ وہ جاہليت ميں كچھ لوگوں كے ساتھ رہے اور انہيں قتل كر كے ان كا مال لے ليا، پھر آ كر اسلام قبول كر ليا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

رہا اسلام تو يہ ميں قبول كرتا ہوں، ليكن مال سے ميرا كوئى تعلق نہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2583 )ز

اور ابو داود كى روايت كے الفاظ يہ ہيں:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" رہا اسلام تو وہ ہم نے قبول كيا، اور رہا مال تو يہ دھوكہ اور غدر كا مال ہے، اس كى ہميں كوئى ضرورت نہيں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2765 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

قولہ: " اور رہا مال تو مجھے اس كى كوئى ضرورت نہيں "

يعنى ميں اسے طلب نہيں كرتا كيونكہ وہ دھوكہ سے حاصل كيا گيا ہے، اور اس سے يہ مسئلہ اخذ ہوتا ہے كہ: امن كى حالت ميں دھوكہ سے كفار كا مال حاصل كرنا جائز حلال نہيں؛ كيونكہ رفيق سفر امانت كے ساتھ ہوتے ہيں، اور امانت والے كو اس كى امانت واپس كرنا ہوتى ہے چاہے وہ مسلمان ہو يا كافر، اور يہ كہ كفار كا مال تو لڑائى اور غلبہ حاصل ہونے سے حلال ہوتا ہے، لگتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے پاس مال اس ليے رہنے ديا كہ ہو سكتا ہے اس كى قوم اسلام قبول كر لے اور وہ انہيں ان كا مال واپس كردے "

ديكھيں: فتح البارى ( 5 / 341 ).

غدر اور دھوكہ كى مثال ميں يہ بھى شامل ہے كہ كافر شخص مسلمان ملك ميں امان كے ساتھ داخل ہوا ہو، يا پھر مسلمان شخص كفار كے ملك ميں امان ( يعنى ويزہ حاصل كر كے ) كے ساتھ گيا ہو، تو اس ويزے كا تقاضہ يہ ہے كہ وہ اسے اس كى جان و مال كى امان دے رہے ہيں، اور اس حالت ميں وہ بھى اس سے اپنى جانوں اور مال ميں امان ميں ہونگے، تو اس طرح اس كے ليے جائز نہيں كہ وہ ان كى جانوں پر زيادتى كرے يا مال كو غصب يا چورى كرے.

كفار كے ملك ميں داخل ہو اور وہاں سے كچھ مال حاصل كرنے ميں كامياب ہونے والے شخص كے بارہ ميں امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور جب كوئى مسلمان شخص دار حرب ميں امان كے ساتھ داخل ہوا .... اور ان كے مال ميں سے كچھ بھى حاصل كرنے پر قادر ہو گيا تو اس كے وہ مال لينا حلال نہيں، چاہے وہ مال قليل ہو يا كثير؛ كيونكہ جب اسے ان كى طرف سے امان حاصل ہے، تو پھر انہيں بھى اس كى جانب سے اسى طرح امان حاصل ہوگى... ، اور اس ليے كہ مال كئى ايك وجوہات كى بنا پر ممنوع ہے:

پہلى وجہ: مالك كے مسلمان ہونے كى بنا پر.

دوسرى وجہ: جس شخص كا معاہدہ اور ذمہ ہو اس كا مال.

تيسرى: اگر كسى شخص كو محدود مدت تك امان حاصل ہے تو اس مدت كے دوران اس كا مال لينا ممنوع ہے. "

ديكھيں: الام ( 4 / 284 ).

اور سرخسى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كفار سے امان حاصل كرنے والے مسلمان شخص كے ليے اپنے دين ميں رہتے ہوئے انہيں غدر اور دھوكہ دينا مكروہ ہے، كيونكہ غدر حرام ہے... اور اگر اس نے ان سے غدر كيا اور مال لے كر دار اسلام ميں آگيا تو اس كا علم ہوجانے كى صورت ميں مسلمان شخص كے ليے اس مال كو خريدنا مكروہ ہے، كيونكہ اس نے اسے خبيث كمائى كے ذريعہ حاصل كيا ہے، اور اس مال كو خريدنے ميں اس طرح كے سبب پر اسے ابھارنا اور برانگيختہ كرنا ہے اور يہ مسلمان كے ليےمكروہ ہے، اس كى دليل مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ہے.... پھر انہوں نے سابقہ حديث بيان كي ہے "

ديكھيں: المبسوط ( 10 / 96 ).

اور جب مسلمان شخص كو اللہ تعالى نے لوگوں كا ناحق مال لينے سے توبہ كرنے كى توفيق دى تو اس توبہ كى شروط ميں لوگوں كے حقوق انہيں واپس كرنا بھى شامل ہے، چاہے وہ كافر ہى كيوں نہ ہو، ليكن اگر اسے حقداروں كو ان كے حقوق واپس كرنے ميں اپنى تذليل يا جرائمى تنگى كى مشكلات كا سامنا ہو تو اس كے جائز ہے كہ وہ كوئى ايسا مناسب طريقہ تلاش كرے جو اس كى عزت كو محفوظ ركھے اور حقداروں كو بغير كسى مشكل كے ان كا حق بھى واپس كر ديا جائے.

مثلا ڈاك كے ذريعہ اسے مال واپس كردے، يا پھر كسى شخص كو وكيل بنا كر بغير نام اور چورى كا بتائے مال واپس كردے، كيونكہ حقداروں كو ان كا حق واپس كرنے كى يہ شرط نہيں كہ وہ اپنا نام اور ذات بھى ظاہر كرے؛ صرف مقصد يہ ہے كہ حقدار كو اس كا حق واپس مل جائے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ..... تو جب آپ نے كسى شخص يا كسى ادارہ كى چورى كى ہو تو آپ كے ليے اس سے رابطہ كرنا ضرورى ہے جس كى چورى كى ہے، اور اسے يہ بتائيں كہ ميرے پاس آپ كا اتنا مال اور فلاں چيز ہے، پھر تم آپس ميں جس پر راضى ہو جاؤ تو وہى كرو.

ليكن بعض اوقات انسان يہ سمجھتا ہے كہ اس كے ليے ايسا كرنے ميں مشقت اور دقت ہے، مثلا اس كے ليے اس شخص كے پاس جا كر يہ كہنا مشكل ہے كہ ميں نے تيرى فلاں چيز اور اتنا مال چورى كيا تھا، تو اس حالت ميں ممكن ہے كہ آپ اس تك وہ رقم اور چيز كسى اور طريقہ سے پہنچا ديں، مثلا آپ اس كے كسى دوست كو ديں اور اسے بتائيں كہ يہ فلاں شخص كى ہے اور پورا قصہ بيان كريں، اور اسے كہيں كہ ميں نے اب توبہ كر لى ہے، اس ليے ميں اميد كرتا ہوں كہ آپ يہ چيز اس تك پہنچا ديں گے "

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 162 ).

آپ سے گزارش ہے كہ آپ اہميت كے حامل درج ذيل سوالوں كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں:

سوال نمبر ( 7545 ) اور ( 14367 ) اور ( 31234 ) كے جوابات اسى ويب سائٹ پر موجود ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب