سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

كفار كي چوري كرنےسے توبہ كر لي

7545

تاریخ اشاعت : 19-11-2004

مشاہدات : 7044

سوال

ميں ايك غيراسلامي ملك ميں رہائش پذير ہوں اور بہت عرصہ تك گناہوں كا مرتكب رہا ہوں، الحمد للہ اللہ تعالي نےمجھےہدايت سے نوازتےہوئے صحيح راہ دكھائي توميں نےتوبہ كرلي، توبہ سے قبل ميں دكانوں سے اشياء چوري كرتا اور اجتماعي انشورنش كےذريعہ مال كےحصول كےليے ميں سركاري اداروں كو بھي دھوكہ ديتا رہا، اور اسي طرح عام ٹرانسپورٹ ميں بغير ٹكٹ سفر بھي كرتا رہا ہوں، اب جبكہ ميں نےيہ كام ترك كرديے ہيں اگر سركاري ادارے كواس كي خبرديتا ہوں تو وہ مجھےغيرمسلم ملك ميں قيد كرديں گے، لھذا ميري آپ سے گزارش ہے كہ ميري راہنمائي كريں كہ مجھےاس معاملہ ميں كيا كرنا چاہيے؟، اس كےساتھ ساتھ ميري آپ سےگزارش ہےكہ آپ ميرے ليے اللہ تعالي سے دعا بھي فرمائيں كہ وہ مجھےمعاف فرما دے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ اللہ تعالي نے آپ كو توبہ كي توفيق سے نوازا، ہم اللہ تعالي سے عا گوہيں كہ وہ ہم سب كو صراط مستقيم پر چلائےاور موت تك صراط مستقيم پر ثابت قدم ركھے .

ميرے بھائي آپ كےعلم ميں ہونا چاہيے كہ كسي بھي مسلمان كے ليے كسي شخص كو دھوكہ دينا اور اس كا ناحق مال كھاناجائز نہيں اگرچہ وہ كافر ہي كيوں نہ ہو .

اور جب مسلمان سےكسي گناہ چوري وغيرہ كا ارتكاب ہوجائےاور حكمران تك اس كا معاملہ جانےسےقبل توبہ كرلے تواس وقت اس كي سزا ساقط ہوجائےگي اور اس كا محاسبہ كرنا جائزنہيں كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالي كا فرمان ہے:

{جولوگ اللہ تعالي اور اس كےرسول صلي اللہ عليہ وسلم سے لڑيں اور زمين ميں فساد كرتے پھريں ان كي سزا يہي ہے كہ وہ قتل كرديے جائيں يا سولي چڑھا ديےجائيں يا مخالف جانب سے ان كےہاتھ پاؤں كاٹ ديے جائيں، يا انہيں جلاوطن كرديا جائے يہ تو ہوئي ان دنيوي ذلت ورسوائي اور آخرت ميں ان كےليے بڑا بھاري عذاب ہے .

ہاں جو لوگ اس سےپہلے توبہ كرليں كہ تم ان پر قابوپالو تويقين مانو كہ اللہ تعالي بہت بڑي بخشش اور رحم وكرم والا ہے} . سورۃ المائدۃ ( 33 - 34 )

اور رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

( گناہوں سےتوبہ كرنےوالا ايسےہي ہےجس كےگناہ نہيں ہيں ) .

اور جس كےگناہ نہ ہوں اس كي كوئي سزا ہي نہيں .

ديكھيں: الاختيارات الفقھيۃ ( 510 - 526 ) اور المغني ( 12 / 484 )

اور عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالي عنھما بيان كرتےہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےاسلمي قبيلہ كو رجم كرنے كےبعد فرمايا:

( ان گندي اشياء سےاجتناب كرو جن سے اللہ تعالي نے منع فرماديا ہے، اور جوكوئي ان ميں پڑ جائے اسے چاہيےكہ وہ اللہ تعالي كےپردہ كےساتھ پردہ پوشي كرے اور اللہ كےسامنےتوبہ كرے؛ اس ليےكہ جس نےبھي ہمارے ليے اپني كمر ظاہر كي ہم اس پر اللہ تعالي كي كتاب نافذ كريں گے ) اسےامام حاكم نے المستدرك علي الصحيحين ( 4 / 425 ) اور امام بيھقي نے البيھيقي ( 8 / 330 ) ميں روايت كيا ہے.

اس حديث كو امام حاكم، ابن سكن اور ابن الملقن نے صحيح قرار ديا ہے.

ديكھيں: التلخيص الحبير ( 4 / 57 ) اور خلاصۃ البدر المنير لابن الملقن ( 2 / 303 ) .

تواس بنا پر يہ لازم نہيں آتا كہ آپ سركاري حكام كےپاس جاكر چوري كا اعتراف كريں، بلكہ آپ كےليے سچي توبہ ہي كافي ہوگي، ليكن آپ كےذمہ يہ واجب ہے كہ چوري كردہ مال ان كےمالكوں كو واپس كريں، اس كےبغير آپ كي توبہ صحيح نہيں ہوگي، اور مال واپس كرنے ميں يہ شرط نہيں كہ آپ نےان كا يہ مال چوري كيا تھا، خاص كرجب آپ كوان سے يہ خدشہ ہو كہ وہ آپ كي شكايت كركےآپ كو قيد كروا ديں گے.

سب سےاہم مالكوں تك مال پہچانا ہے يا توآپ اس كي رقم كسي لفافے ميں بند كركے انہيں ديں يا پھر كسي ايسے شخص كوديں جوان تك پہنچا دے، يا پھر كوئي اور طريقہ اختيار كرليں .

اور حكومت كا مال بھي واپس كرنا ضروري ہے، اور اسي طرح دوسرے اشخاص كا بھي، اور اگرآپ اس مال كي تحديد نہيں كرسكتےتوآپ اس كي تحديد ميں احتياط كو مدنظر ركھتےہوئے اندازہ لگاكر اس مال كوواپس كريں يعني جب آپ كو يہ يقين ہوجائےكہ آپ كےذمہ جوواجب تھا اس كي ادائيگي ہو گئي ہے.

اور اگر آپ كومالكوں كا بھي علم نہيں توآپ يہ رقم ان كي جانب سے صدقہ كرديں اور كسي خيروبھلائي كےكام ميں صرف كرديں .

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب