منگل 23 جمادی ثانیہ 1446 - 24 دسمبر 2024
اردو

حدیث ( انا امۃ امیۃ لانکتب ولانحسب ) کا معنی کیا ہے

4713

تاریخ اشاعت : 30-04-2003

مشاہدات : 10276

سوال

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ( انا امۃ امیۃ لانکتب ولانحسب ) ( ہم ایک امی امت ہیں جو کہ پڑھے لکھے نہیں ) کا معنی کیا ہے ؟
اورکیا مسلمان جوکچھ آج سیکھ رہے ہیں وہ اس کے منافی ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


حدیث کے الفاظ اس طرح نہیں جس طرح کہ سوال میں ذکر ہوۓ ہیں بلکہ حدیث کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں :

( انا امۃ امیۃ لانکتب ولانحسب الشھر ھکذا وھکذا یعنی مرۃ تسعۃ وعشرین ومرۃ ثلاثین ) ہم امی قوم ہيں لکھتے پڑھتے نہیں مہینہ اس اس طرح ہوتا ہے ، یعنی کبھی انتیس اور کبھی تیس دن کا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1814 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1080 ) ۔

اوریہ حدیث قمری مہینہ کے شروع ہونے کے مسئلہ میں وارد ہوئ ہے جو کہ اس بات پردلالت کرتی ہے کہ مہینہ فلکی حسابات سے نہیں شروع ہوتا بلکہ ظاہری طور پرچاند دیکھنے پر منحصر ہے جب چاند نظر آجاۓ تومہینہ شروع ہوگا ، توحدیث وارد اس لیے ہوئ ہے کہ یہ بیان کیا جاسکے کہ قمری مہینہ کا اعتماد رؤیت ھلال پرہوگا نہ کہ حسابات فلکیہ پر ، اوریہ حدیث اس لیے نہیں کہ امت اسلامیہ جھالت اختیارکیے رکھے اورعادی حساب وکتاب اورعلوم نافعہ کاحصول نہ کرے ۔

آج کے مسلمان جوکچھ مختلف قسم کےدنیاوی فا‏ئدہ مند علوم حاصل کررہے ہیں یہ حديث اس کے منافی نہیں ، اوراسلام توایک علمی دین ہے اورعلم کی دعوت اورہرمسلمان پرعلم کے حصول کوواجب قرار دیتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے فرض کردہ احکامات اورعبادات ومعاملات کوسیکھے ۔

اوراسی طرح دنیاوی علوم مثلا طب ، انجیرینگ ، زراعتی وغیرہ علوم تومسلمانوں پرحسب ضرورت یہ علوم سیکھنے واجب ہیں ، اگرمسلمانوں کوضرورت ہے کہ وہ ایک سو‏ئ تیار کریں توان پرواجب ہے کہ ان میں ایسا شخص ہو جو کہ سو‏ئ تیار کرنے کا علم حاصل کرے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ تعالی نے اس حديث کی کافی ووافی شرح کی ہے جس میں انہوں نے بیان کی انتہاء کردی ہے ، ذیل میں ہم ان کے جواب میں سے چیدہ چیدہ اشیاء کا ذکرکرتے ہیں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ( ہم ایک امی قوم ہیں ) یہ طلب نہیں ، کیونکہ شریعت سے قبل وہ امی ہی تھے جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

وہ اللہ ہی ہے جس نے امیوں میں سے ہی ان کی طرف رسول بھیج دیا ۔

اوررب ذوالجلال کا فرمان کچھ اس طرح بھی ہے :

اوران لوگوں کو کہہ دو جنہیں کتاب دی گئ اورامیوں کوبھی کہ کیا تم اسلام لے آۓ ہو ؟ ۔

توجب ان کے لیے امی کی صفت کا بعثت سے قبل ثبوت ملتا ہے انہیں اس کی ابتدا کا حکم نہیں تھا ، جی ہاں ہوسکتا ہے کہ ان کویہ بھی حکم دیا گيا ہوکہ وہ اس کے بعض احکام پر باقی رہیں ، ہم اس کا بیان کریں گے کہ انہیں مطلقا اس پررہنے کا حکم نہیں دیا گيا جس پروہ پہلے تھے ۔

۔۔۔۔

جس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کومبعوث کیا گيا اس میں بہت سے لکھنے پڑھنے والے لوگ بھی تھے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام میں پاۓ جاتے تھے ، اوران ميں حساب وکتاب کرنے والے لوگ بھی تھے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوفرائض کے ساتھ جس میں حساب (ریاضی ) بھی ہے مبعوث کیا گيا ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ جب ان کا صدقہ پرمقررکیا گیا عامل ابن لتبیۃ آیا تونبی صلی اللہ وعلیہ وسلم نے اس کے ساتھ حساب کیا ۔

اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کئ ایک کاتب تھے جن میں ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، زید ، اورمعاویہ رضي اللہ تعالی عنہم شامل تھے جو کہ وحی کی کتابت کرتے اور اسی طرح معاھدے اورنبی صلی اللہ کی طرف سے مختلف بادشاہوں اورحکمرانوں اوران کے مقرر کردہ عاملوں اورگورنروں کوخط لکھتے تھے ۔

اوراللہ تعالی نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے :

تاکہ تم سالوں کی تعداد اورحساب کوجان لو اللہ تعالی نےان دوآیتوں میں یہ بتایا ہے کہ اس نے یہ کام اس لیے کیا ہے تاکہ تم حساب کوجان سکو ۔

اورامی اصل میں " الامۃ " جو کہ امیین کی جنس ہے کی طرف منسوب ہے ، اوریہ اسے کہا جاتا ہے جوجنس سے لکھنے یا پڑھنے کے خصوصی علم کےساتھ متمیز نہ ہو ، جیسا کہ عام لوگوں میں سے اس شخص کوعامی کہا جاتا ہے جودوسروں سے کسی خصوصی علم میں متمیز نہ ہو ۔

اوریہ بھی کہا گيا ہے کہ امی کی نسبت " الام " کی طرف ہے ، یعنی وہ معرفت ، علم وغیرہ میں سے اسی پرباقی ہے جس کا اسے اس کی ماں نےعادی بنایا تھا ۔

پھروہ چيز جس کے ساتھ انسان عمومی امیۃ سے نکل کرخصوصیت کی جاتا ہے کبھی تووہ فی نفسہ فضل وکمال ہے جس طرح کہ قرات قرآن اوراس کے معانی کوسمجھنے کے ساتھ متمیزہونا ، اورکبھی ایسی اشیاء جس سے فضل وکمال تک پہنچا جا سکتا ہے ، جیسا کہ قرآن مجید پڑھنا اوراس کے معانی کوسمجھنے کے ساتھ متمیزہونا ہے ۔

اوربعض اوقات وہ چيز ہوتی ہے جس سے فضل وکمال تک پہنچا جاسکتا ہے ، مثلا لکھنے اررخط وغیرہ پڑھنے کے ساتھ دوسروں سے متميز ہونا ، تو یہ کام اس شخص کی مدح کا با‏عث ہے جس نے اسے کمال کے لیے استعمال کیا اور اس شخص کے لیے مذمت کا باعث ہے جس نے اسے معطل کرکے رکھ دیا اوریا پھراسے شروبرائ کے لیے استعمال کیا ، اورجوشخص اسے چھوڑ‍ کراس بھی ا‌فضل اور نفع مندچیزحاصل کرلے وہ زیادا افضل اوراکمل ہوگي ، تواس کا چھوڑنا اس کے حق میں مقصد کوحاصل کرنے کے ساتھ اکمل وافضل ہوگا ۔

توجب یہ واضح ہوگیا کہ امیوں سے تمیز کی دوقسمیں ہیں ؛ تووہ امت جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوۓ عرب تھے ، انہیں کے ذریعہ ساری امتوں کو دعوت ملی ، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی زبان میں مبعوث ہوۓ تووہ عام قسم کے امی تھے ان میں علم و کتاب غیرہ کی تميز نہیں تھی باوجود اس کے کہ ان کی فطرت علم کے لیے دوسری امتوں کے مقابلہ میں زیادہ تیارتھی ۔

اسی زمین کی طرح جوکاشت کے قابل ہو لیکن اسے کاشت کرنے والا کوئ نہیں ، تو ان کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ کوئ کتاب نہیں تھی جسے وہ پڑھیں جس طرح کہ اہل کتاب کے پاس کتاب موجود تھی ، اورنہ ہی کوئ قیاسی اوراستنباط شدہ علوم ہی تھے جس طرح کہ صابئ وغیرہ کے پاس تھے ۔

اوران میں کتابت بہت ہی قلیل تھی ، اورعلم صرف اتنا تھا جتنا تھا جس سے انسان عمومی امیۃ سے نہیں نکلتا مثلا اللہ سبحانہ وتعالی کا علم ، اورمکارم اخلاق کی تعظیم اور علم انواء( ستاروں کا علم ) اورشعروں اور علم انساب وغیرہ تووہ ہراعتبار سے اسم امی ( ناخواندہ ) کے مستحق ٹھرے ، جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی نے ان کے متعلق فرمایا ہے :

وہ اللہ ہی ہے جس نے امیوں ( ناخواندہ لوگوں ) میں ان میں سے ہی ایک رسول بھیجا ۔

اورفرمان باری تعالی ہے :

اھل کتاب اورامی لوگوں کو کہہ دیجیے کہ کیا تم اسلام لے آۓ ہو ، اگرتو وہ مسلمان ہوگۓ ہیں توھدایت یافتہ ہیں اور اگر منہ پھیر لیں توآپ پر صرف تبلیغ کرنا ہے ۔

تواللہ تعالی نے امی لوگوں کو اھل کتاب کے مقابلہ میں ذکر کیا ہے ، تو کتابی امی کے علاوہ ہوا ۔

توجب ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کومبعوث کردیا گيا اوران پر کتاب اللہ میں جوکچھ بیان ہوااس کی اتباع اوراس پرغورفکراور تدبر اور اسے سمجھنا اوراس پر عمل کرنا واجب کردیا گیا اور قرآن مجید کو ہرچیز کی تفصیل بنایا گیا اوران کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہرچيز حتی کہ بیت الخلاء جانے کا طریقہ بھی بتایا تووہ اھل علم اورکتاب والے ٹھرے ، بلکہ علوم نافعہ میں سب مخلوق سے افضل اور زيادہ علم والے بن گۓ اور ان سے وہ مذموم اورناقص ناخواندگی زائل ہوگئ جو کہ عدم علم اوراللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ کتاب کے نہ ہونے کی بنا پر تھی ۔

اورانہیں کتاب وحکمت کا علم اور کتاب کی وراثت مل گئ جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے اس فرمان میں ذکر کیا ہے :

اللہ وہ ہے جس نے امیوں میں سے ہی ان کی طرف ایک رسول مبعوث کردیا جو ان پر اللہ تعالی کی آیات پڑھتا اور انہیں پاک کرتا اور انہیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے اگرچہ وہ اس سے قبل واضح قسم کی گمراہی میں تھے ۔

تووہ ہراعتبارسے امی ( ناخواندہ ) تھے توجب انہیں کتاب وحکمت سکھا دی تو ان کےبارہ میں اللہ رب العزت نے فرمایا :

پھر ہم نے ان لوگوں کوکتاب کا وارث بنایا جن کوہم نے اپنے بندوں میں سے پسند فرمایا ، پھران میں سے بعض تواپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں ، اور ان میں سے بعض متوسط درجے کے ہیں ، اوران میں سے بعض اللہ کی توفیق سے نیکیوں میں ترقی کیے چلےجاتے ہیں ۔

اورایک اورمقام پراللہ سبحانہ وتعالی کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

اوریہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے نازل فرمایا ہے بڑی بابرکت کتاب ہے تواس کی اتباع کرو اورتقوی اختیارکرو تا کہ تم پررحم کیا جاۓ ، کہیں تم لوگ یہ نہ کہوکتاب توہم سے پہلے جودوفرقے تھے ان پر نازل ہوئ تھی اور ہم اس کے پڑھنے سے پڑھانے سے محض بے خبر تھے ، یا یہ نہ کہو کہ اگر ہم پرکوئ کتاب نازل ہوتی توہم ان سے بھی زيادہ راہ راست پرہوتے ۔

اورابراھیم خلیل اللہ کی ان کے بارہ میں کی گئ دعا قبول ہو‏ئ جس میں انہوں نے یہ کہا تھا :

اے ہمارے رب ! ان میں انہیں میں سے رسول بھیج دے جوان پر تیری آیات کی تلاوت کرے ، اور انہیں کتاب وحکمت سکھاۓ ، اورانہیں پاک کرے یقینا توغلبہ اورحکمت والا ہے ۔

اوراللہ جل شانہ کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

بے شک مسلمانوں پراللہ تعالی کا بڑا احسان ہے کہ ان ہی میں ایک رسول ان کی طرف بھیجاجو ان پر اللہ تعالی کی آیات تلاوت کرتااور انہیں پاک کرتا اورانہیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے ۔

تواس ناخواندگی میں سے کچھ توحرام اورکچھ مکروہ اورکچھ نقص اور ترک افضل ہے ، جوسورۃ فاتحہ یا قرآن میں سے کچھ بھی نہ پڑھ سکے توفقھاء ایسے شخص کو نمازکے مسا‏ئل میں قاری کے مقابلےمیں امی ( ناخواندہ ) کہتے ہوۓ یہ کہتے ہیں کہ قاری کا امی کی اقتداء کرنا صحیح نہیں ، اورنمازمیں امی (ناخواندہ ) امی کی اقتداء کرنا جائز ہے ، اوراس طرح کے مسائل میں ۔

توفقھاء یہاں پرامی سے مراد یہ لیتے ہیں جوفرضي اورواجب قرات بھی نہ کرسکے چاہے وہ لکھ سکتا ہویا نہ لکھ سکے اورحساب وکتاب کرنا جانتا ہویا نہ جانتا ہو ۔

توایسی امیۃ ( ناخواندگی ) بھی ہے جوواجب کے ترک میں ہے اوراگر انسان اس کی تعلیم پرقادرہونے کے باوجود نہ سیکھے تووہ سزا کا مستحق ہوگا

اورامیۃ ( ناخواندگی ) کی ایک قسم مذموم بھی ہے جیسے کہ اللہ تعالی نے اھل کتاب کویہ وصف دیتے ہوۓ فرمایا :

ان میں سے بعض ایسے ان پڑھ بھی ہیں جوصرف کتاب کے ظاہری الفاظ کوہی جانتے ہیں اورصرف گمان اوراٹکل پرہی ہیں ۔

تویہ اس شخص کی صفت ہے جو کلام اللہ کونہ توسمجھتااورنہ ہی اس پر عمل کرتا ہے بلکہ صرف اس کی تلاوت پر ہی گزارا کرتا ہے ، جیسا کہ حسن بصری رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :

قرآن مجید تواس لیے نازل ہوا ہے کہ اس پرعمل کیا جاۓ تولوگوں نے اس کی تلاوت کرنے کوہی عمل بنا لیا ۔

تویہاں پرامی وہ ہے جوہوسکتا ہے کہ قرآن مجید کے حروف وغیرہ کوتو پڑھ سکتا ہے لیکن انہیں سمجھتا ہی نہیں بلکہ ظاہری طورپروہ اپنےگمان میں علمی کلام بھی کرتا ہوگا ، تویہ بھی وہ امی ( ناخواندگی ) مذموم ہے جس طرح کہ اللہ تعالی نے اس کے واجبی علم کے نقص ہونے پراس کی مذمت فرمائ ہے چاہے وہ فرض عین ہو یا فرض کفايہ ۔

اوراس میں سے کچھ افضل واکمل بھی ہے ، جس طرح کہ ایک شخص قرآن کریم کچھ حصہ ہی پڑھتا اورجو اس کے متعلق ہے اسے ہی سمجھتا اورشریعت میں سےبھی اتنا ہی سمجھتا ہے جتنا کہ اس پرواجب ہو ، تواس کوبھی امی کہا جاۓ گا ، اوراس کےمقابلے میں جسے مکمل قرآن کا علم اورعمل کرنے کی توفیق دی گئ ہے وہ پہلےسے افضل اوراکمل ہے ۔

شخص کے لیے یہ امتیازی امورجوکہ فضائل وکمال ہیں کواس نے اپنے اندر نہیں پایا ، اس میں یہ نہ پائی جانے والے اموریا توعینی طورپرواجب تھے اوریا پھرفرض کفایہ یا مستحب تھے ۔

ان امورسے مطلقا اللہ تعالی ہی موصوف ہے بلاشبہ اللہ تعالی علیم وحکیم ہے اورسب قسم کے علم اورشروخیراور ارادہ کے اعتبارسے کلام نافع اللہ تعالی میں ہی جمع ہے اوراسی طرح اللہ تعالی نے انبیاء اورہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جوکہ علماء اورحکماء کے سردارہیں کوبھی علم دیا ہے ۔

اوروہ امتیازی امورجوفضائل کے وسا‏ئل اوراسباب ہیں جن کے بغیرکسی اورکے ساتھ بھی گزارا ممکن ہے ، تویہ اس کاتب کی طرح جو کہ لکھتا پڑھتا ہے توجب وہ اس سے مفقود ہوتویہ اس میں نقص ہوگا اوراس کے بغیراس کی فضیلت مکمل نہیں ہوگي اوروہ اس میں اپنے کمال وفضل سے تعاون حاصل کرتا ہے جس طرح کہ کوئ لکھنا پڑھنا سیکھے اوراس سے قرآن مجید اورعلمی کتابیں پڑھے اورلوگوں کے لیے نافع اشیاء لکھے تویہ اس کے حق میں فضل وکمال ہے ، اگرچہ وہ اس سے وہ ایسی اشیاء کے حصول پربھی تعاون لے جوکہ اس کےلیے مضراور نقصان دہ ہوں ، یاپھر لوگوں کواس شخص کی طرح نقصان دے جو کہ اس پڑھائ سے گمراہ کرنے والی کتابیں پڑھے اورلوگوں کونقصان پہنچانےوالی اشیاء لکھے جس طرح کہ کوئ‏ بڑے بڑے افسروں اورججوں اورگواہوں کی جعلی خط وغیرہ تیارکرے ، تواس کے حق میں برا اورنقصان دہ ہوگا ۔

اوراسی لیے عمر نے عورتوں کواس سے منع کردیا تھا ، اوراگراس کے بغیر کسی اورطریقہ سے علم میں کمال حاصل ہوسکے اورتعلیم حاصل ہوسکے تواس کے لیے یہ افضل اوربہتر ہے ، اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی حال تھا جن کےبارہ میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

جولوگ ایسے نبی امی کی اتباع کرتے ہیں جن کووہ لوگ اپنے پاس تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ۔

تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اموۃ ( ناخواندگی ) حافظے سے علم اورپڑھائ مفقود ہونے میں نہیں تھی بلکہ بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس میں توامام الائمۃ ہیں ، بلکہ وہ اس اعتبارسے امی تھے کہ لکھ نہیں سکتے تھے اورلکھا ہوا پڑھ نہیں سکتے تھے جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی نے ان کے بارہ میں وضاحت کرتے ہوۓ فرمایا :

اس سے پہلے توآپ کوئ کتاب نہ پڑھتے تھے اورنہ ہی کسی کتاب کواپنے ھاتھ سے لکھتے تھے ۔

۔۔۔۔۔

پھراس کے بعد شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی اسی حدیث ( ہم امی قوم ہیں لکھنا اورحساب وکتاب نہیں جانتے ) کی مراد بیان کرنے کی طرف آتے ہیں اوراس میں قرینہ بھی پایا جاتا ہے جوکہ مراد پردلالت کرتا ہے تووہ بیان کرتے ہوۓ کہتے ہیں :

توجب اس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیاکہ مہینہ تیس دنوں کا اورمہینہ انتیس دنوں کا بھی ہوتا ہے تواس سے حدیث کی مراد بیان کی گئ کہ ہم ر‎ؤیت ھلال میں حساب وکتاب کے محتاج نہیں اس لیے کہ کبھی وہ تیس اور کبھی انتیس کا ہوتا ہے توان کےدرمیان فرق صرف رؤیت سے ہی ممکن ہے اوران دونوں میں حساب وکتاب سے فرق نہیں کیا جاسکتا ۔

تواس سے یہ ظاہرہوا کہ اس میں بیان کی گئ امیۃ ( ناخواندگی ) کئ ایک وجوہ سے صفت کمال ومدح ہے :

ایک تویہ کہ حساب وکتاب کی ضرورت ہی نہيں اس لیے کہ اس سے بھی زیادہ واضح ھلال ہے توحساب وکتاب کی ضرورت ہی باقی نہ رہی ۔

اورایک وجہ یہ بھی ہے کہ حساب وکتاب سے اس میں غلطی ہوجاۓ گی ۔

۔۔ شیخ الاسلام کی کلام کے آخیر تک ۔ .

ماخذ: مجموع الفتاوی ( 25 / 164 - 175)