الحمد للہ.
بلاشك و شبہ والدين كے ساتھ حسن سلوك كرنا بندے كے ليے اللہ كے قرب كا سب سے عظيم ذريعہ ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى نے ہر حالت ميں اس كى وصيت بھى فرمائى ہے حتى كہ اگر والدين اللہ كے ساتھ كفر كے بھى مرتكب ہوں، تو پھر بھى ان كے ساتھ حسن سلوك كرنا ہے، اس كى تفصيل سوال نمبر ( 22782 ) اور ( 5326 ) اور ( 5053 ) كے جوابات ميں بيان ہو چكى ہے، آپ ان جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
اور آپ نے جو ذكر كيا ہے اس كے متعلق گزارش ہے كہ آپ جس كام ميں مہارت ركھتے ہيں اس كے متعلق اپنے والد كو مطمئن كرنے كى كوشش كريں، اور آپ اس ميں نفع حاصل كر سكتے ہيں، كيونكہ جو شخص بھى جس كام كے ليے پيدا ہوا ہے وہ اس كے ليے آسان ہے، اور اعمال كى بہترى اور اس ميں امانت كى ادائيگى اسى طرح ہو سكتى ہے كہ انسان وہى عمل اور كام كرے جو اس كے مناسب ہے، اور جو نا اہل شخص كو كام سونپ دينا كام اور مال كو ضائع كرنا اور امانت ميں كوتاہى ہے.
پھر آپ يہ بھى كوشش كريں كہ والد كو اس كام كے ليے كوئى بہتر اور امانتدار شخص مہيا كريں، جو آپ كے بدلے تجارت ميں ان كى معاونت كرے، چاہے اس كى مزدورى ميں سے آپ كو بھى كچھ برداشت كرنا پڑے تو اپنے والد كى خوشى كے ليے يہ بھى برداشت كر ليں، اور اگر معاملہ اس كا بھى تقاضہ كرے كہ آپ اپنى راحت و آرام ميں سے كچھ وقت اپنے والد كے ساتھ رہيں اور وہ آپ كى موجودگى سے مانوس ہو تو ايسا بھى كر ليں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
احسان كرو، يقينا اللہ تعالى احسان كرنے والوں سے محبت كرتا البقرۃ ( 195 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
اور والدين كے ساتھ احسان كرو البقرۃ ( 83 ).
اس ليے اگر آپ اس كى كوشش كريں تو پھر آپ كے والد كے مطمئن ہونے ميں كوئى چيز مانع نہيں، ان شاء اللہ رائے آپ كى ہے، اگر ممكن ہو سكے تو آپ اپنے كام سے كچھ چھٹياں لے ليں، اور ان چھٹيوں ميں اپنے والد كے ساتھ مل كر كام كريں، اميد ہے كہ اسى اثناء ميں معاملات ويسے ہى آسان ہو جائيں جس طرح آپ چاہتے ہيں، اور اگر كے ليے ملازمت سے چھٹياں حاصل كرنا آسان نہ ہوں تو پھر اگر آپ كے ليے اپنا كام چھوڑنا ضرورى نہيں، اور جس ميں آپ كو نقصان اور ضرر ہوتا ہو مثلا والدين كو راضى كرنے كے ليے مال چھوڑنا، يا بيوى كو طلاق دينا واجب نہيں، اور اس ميں ان كى اطاعت نہ كرنا ان شاء اللہ والدين كى نافرمانى ميں شامل نہيں ہوتا.
مزيد آپ سوال نمبر ( 9594 ) اور ( 47040 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
ايك شخص نے امام احمد سے كہا:
ميرى ايك لونڈى ہے اور ميرى والدہ اس لونڈى كو فروخت كرنے كا مطالبہ كرتى ہے.
امام احمد كہنے لگے:
كيا تمہيں يہ خدشہ ہے كہ تمہارا دل اس كے پيچھے ہى رہے گا ؟
يعنى جب تم اس لونڈى كو فروخت كر دو تو پھر بھى تمہارا دل اس كے ساتھ معلق رہےگا ؟
اس شخص نے جواب ديا: جى ہاں.
تو امام احمد كہنے لگے: تم اسے فروخت نہ كرو.
وہ شخص كہنے لگا: ميرى والدہ كہتى ہے جب تك تم اسے فروخت نہيں كروگے ميں تم سے خوش نہيں ہونگى.
امام احمد كہنے لگے: اگر تمہيں اپنے آپ كا خدشہ ہے يعنى تمہارا دل معلق رہےگا تو پھر والدہ كو يہ حق نہيں ہے.
ديكھيں: الآداب الشرعيۃ تاليف ابن مفلح ( 1 / 448 ).
ليكن آپ كو چاہيے كہ آپ اپنے والد كى اصلاح كريں اور اس كے دل كو خوش ركھيں، اور يہ بھى كوشش كريں كہ تمہارى تجارت حرام فروخت كرنے سے پاك ہو، يا جس كے متعلق آپ كا ظن غالب يہ ہے كہ اس كا استعمال حرام ہوگا اس سے پاكيزہ ركھنے كى كوشش كريں اور اگر آپ كى تجارت ميں كوئى غبار ( يعنى حرام ) ہے تو پھر آپ اسے فروخت نہ كريں، چاہے آپ كے والد اس كا حكم بھى ديں، كيونكہ اللہ خالق الملك كى نافرمانى و معصيت ميں كسى بھى مخلوق كى اطاعت نہيں كى جا سكتى.
اور آپ نے جو يہ بيان كيا ہے كہ كاپيوں پر تصاوير ہيں تو يہ مصيبت عام ہو چكى ہے، اس ليے اگر تو يہ تصاوير فوٹو گرافى كے ذريعہ بنائى گئى ہيں، اور ہاتھ سے نہيں، تو پھر ان كاپيوں كو فروخت كرنے ميں كوئى حرج نہيں جن پر يہ تصاوير بنى ہوئى ہيں ـ ان شاء اللہ ـ كيونكہ يہاں فى ذاتہ تصوير فروخت كرنا مقصود نہيں، بلكہ يہاں كاپياں فروخت كرنا اور خريدنا مقصود ہيں، ليكن اس سے بھى اجتناب كرنا بہتر اور افضل ہے، ليكن اگر يہ تصاوير عورت كى ہوں يا پھر ايسا منظر ہو جو فحش اور ننگا ہو جيسا كہ آج كل بہت زيادہ تصاوير ايسى ہى ہوتى ہيں، تو ان كا فروخت كرنا جائز نہيں، كيونكہ يہ فتنہ و فساد اور فحاشى كى نشر و اشاعت ميں شامل ہوتا ہے، اور اس ليے كہ لوگ اس طرح كى تصاوير ركھنے كے مقصد كے ليے خريدتے ہيں.
اور موسيقى كى كاپياں اور كتابيں فروخت كرنا حرام ہيں، كيونكہ يہ برائى اور معصيت و نافرمانى ميں معاونت ہے، اور اسى طرح بال مونڈنے كے آلات ايسے شخص كو فروخت كرنا جس كے متعلق يہ علم ہو كہ وہ انہيں داڑھى مونڈنے ميں استعمال كريگا، يہ بھى جائز نہيں، ليكن اگر وہ اسے مباح امور ميں استعمال كرے تو پھر اسے فروخت كرنا جائز ہے.
فضيلۃ الشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ميرے والد كى اليكٹرانك اشياء مثلا ٹيلى ويژن، ويڈيو، اور كچھ موسيقى كے آلات اور اسى طرح گولڈن گھڑيوں كى دوكان ہے، اور والد صاحب مجھے دوكان پر بيٹھنے كا كہتے ہيں، ليكن ميں انكار كرتا ہوں، تو كيا يہ نافرمانى ميں شمار ہوتا ہے، اور اس سلسلہ ميں كيا واجب ہوتا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" جب آپ ايسا فعل كرنے سے باز رہيں جو والد حرام كام كرتا ہے تو يہ نافرمانى ميں شامل نہيں ہو گا، ليكن آپ كے ذمہ واجب ہوتا ہے كہ آپ اپنے والد كو نصيحت كريں اور اسے كہيں كہ يہ حرام ہے، اور اس كى كمائى حرام ہے، اگر تو وہ راہ راست پر آ جائے تو يہى مطلوب ہے، ليكن اگر راہ راست پر نہيں آتا تو پھر گناہ اس پر ہے آپ كو نصيحت كرنے كا اجروثواب ملےگا.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" انہيں راہ راست پر لانا اور ہدايت دينا آپ پر نہيں ...... "
اور اگر وہ آپ كو دوكان پر بيٹھنے كا كہتا ہے تو آپ وہ اشياء فروخت نہ كريں جو حرام ميں استعمال ہوتى ہيں، بلكہ وہ اشياء فروخت كريں جسے غالبا لوگ مباح ميں استعمال كرتے ہيں، مثلا ريڈيو، ٹيپ ريكارڈر، يا ويڈيو، اور ٹيلى ويژن فروخت نہ كريں، كيونكہ اكثر خريدار انہيں حرام ميں ہى استعمال كرتے ہيں "
ديكھيں: لقاء الباب المفتوح ( 1 / 192 ).
واللہ اعلم .